Wisal Muhammad Khan

خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

وصال محمد خان

ہفتہء گزشتہ کے دوران صوبے سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے کارکن اورراہنماراولپنڈی دھرنے جبکہ پی ٹی آئی والے صوابی جلسے میں مصروف رہے اورصوبے کاہاٹ ایشوبھی یہی جلسہ اوردھرنارہا۔جماعت اسلامی کے کارکن دھرنے میں شرکت کے حوالے سے پر جوش رہے کچھ کارکن اورراہنماتومسلسل دھرنے میں موجودرہے جبکہ کچھ باری باری حاضری کی رسم اداکرتے رہے ۔پی ٹی آئی ایک طویل عرصے بعدکوئی جلسہ کرنے جارہی تھی اس کیلئے حسب سابق سوشل میڈیاپربھرپورمہم چلائی گئی اسدقیصرنے اس جلسے کوپاکستانی تارٰیخ کے چندبڑے جلسوں میں سے ایک قراردیامگرانہوں نے بلاشبہ مبالغہ آرائی سے کام لیاہے شرکاکی تعدادقابل ذکرتھی مگراس میں تاریخی والی کوئی بات نہیں تھی جلسے سے محمودخان اچکزئی ،بیرسٹرگوہر،اسدقیصر،علی امین گنڈاپور،عمرایوب اوردیگرنے خطاب کیاحسب توقع پی ٹی آئی راہنما ؤں کی جانب سے دھمکی آمیززبان استعمال کی گئی۔وزیراعلیٰ ،علی امین گنڈا پورنے اپنے خطاب میں ڈی چوک اسلام آبادمیں جلسے کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ‘‘ اب کسی کاباپ بھی این اوسی کینسل نہیں کرسکتا ہم نے خوف کے بت توڑدئے ہیں روک سکتے ہوتوروک لو اب دمادم مست قلندرہوگا’’۔کچھ اسی سے ملتے جلتے خیالات کااظہار دیگر قائدین کی جانب سے بھی ہوا۔وزیراعلیٰ کاطرزتکلم وتخاطب ہی دھمکی پرمبنی ہوتاہے اسلئے ان سے اسی قسم کے خطاب کی توقع کی جارہی تھی دیگرقائدین کوبھی چونکہ طویل عرصے بعدکسی جلسے سے خطاب کا موقع ملاتھا اسلئے انہوں نے دل کھول کربھڑاس نکالی اوروفاقی حکومت سمیت فوج کوبھی بے جا تنقیدکانشانہ بنایاگیا۔پی ٹی آئی کے پاس چونکہ دھمکیوں ،للکاروں اوراحتجاجوں کے علاوہ عوام کودکھانے کیلئے کچھ نہیں اسلئے اسکے قائدین یہی کچھ کررہے ہیں ۔

عمران خان نے صوبائی وزراء اورمحکموں کی کارکردگی جانچنے کیلئے سابق گورنرشاہ فرمان ،بزرگ قانون دان قاضی انوراورمشیرانسدادبدعنوانی مصدق عباسی پرمشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جووزراء ،مشیروں ،معاونین خصوصی اورمحکمانہ افسران کی کڑی نگرانی کریگی اوربدعنوانی کی اطلاعات کی تصدیق کے بعدبانی پی ٹی آئی کوآگاہ کریگی۔اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے کے دوران وزیرسی اینڈ ڈبلیو شکیل خان کی جانب سے اعلان کیاگیاکہ انہوں نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی ہے اورانکی ہدایت پروہ صوبائی محکموں میں کرپشن کے خلاف پریس کانفرنس کرنے جارہے ہیں۔مذکورہ وزیرکواگرچہ پریس کانفرنس کرنے نہیں دیاگیا بلکہ انہیں نامعلوم مقام پربلاکرانکی پر یس کانفرنس میں مشیراطلاعات بیرسٹرسیف کوبھی شامل کرلیاگیاجس حکومت میں کرپشن کے خلاف شکیل خان پریس کانفرنس کرنے جارہے تھے اسی حکومت کے نمائندے کوبغل میں بٹھاکروہ کرپشن پرکیابات کرسکتے تھے؟اس کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔یقیناًوہ جوکچھ کہنا چاہتے تھے اسکی اجازت پارٹی یاوزیراعلیٰ نے نہیں دی ہوگی مگرانہوں نے تالاب میں جوپہلاپتھرپھینکاہے اسکے اثرات پورے صوبے میں محسوس کئے گئے ۔صوبائی حکومت میں واقعی کرپشن کے نئے ریکارڈزقائم ہورہے ہیں گندم خریداری میں مبینہ کرپشن کے حوالے سے اپوزیشن جماعتیں انگلیاں اٹھارہی ہیں مگراس معاملے پرتاحال حکومت نے چپ سادھ لے رکھی ہے دیگرکئی محکموں میں کرپشن کی داستانیں زبان زدعام ہیں مگراسمبلی کے اندراپوزیشن چونکہ نہ ہونے کے برابر ہے اورجوموجودہے اسے بھی اپوزیشن کرنے سے کوئی سروکارنہیں ۔جے یوآئی کے پاس اسمبلی میں ممبران موجودہیں مگروہ حکومت کے خلاف کوئی ایشواٹھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ پی ٹی آئی اورجے یوآئی کے درمیان اتحاد کیلئے کچڑی پک رہی ہے جس کاتاحال کوئی نتیجہ توسامنے نہیں آیامگرگاہے بگاہے خبرآجاتی ہے کہ معاملات خاصی حدتک طے پاچکے ہیں مولانافضل الرحمان چونکہ گھاگ سیاستدان ہیں اسلئے اگریہ اتحادہوتاہے تووہ اپنی شرائط منوانے کی بھرپورکوشش کرینگے ۔پی ٹی آئی کی تو خواہش ہے کہ مولاناکل کی بجائے آج ہی اتحادکااعلان کردیں کیونکہ انہیں میدان گرم رکھنے کیلئے مولاناکاتعاون درکارہے ۔ویسے اتحاد کے اس پراجیکٹ کے بارے میں صوبے کے عوامی حلقے نیک خیالات نہیں رکھتے اوراسے سیاسی مفادات کااتحادقراردیاجارہاہے۔ کیونکہ کچھ ہی عرصہ قبل دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف سخت مؤقف رکھتی تھیں اورایکدوسرے کوسیاسی قوت یاسیاسی جماعت تسلیم کرنے پرتیارنہیں تھیں دونوں جماعتوں کے جذباتی کارکن بھی اس اتحادکے حق نہیں ۔

صوبائی حکومت نے مردان میں تین جامعات کی فالتواراضی فروخت کرنے کافیصلہ کیاتھا۔یہ تینوں جامعات اے این پی دورمیں بنی تھیں۔ اوران کیلئے اراضی بھی اسی دورمیں سیکشن فورکے تحت خریدی گئی تھی ۔اراضی مالکان نے ہائیکورٹ سے رجوع کرکے قیمتیں بڑھانے کی استدعا کی تھی جسے ہائیکورٹ نے منظورکرکے حکومت کواضافی رقم اداکرنے کاحکم جاری کیاصوبائی حکومت نے خزانے یابجٹ سے رقم ادا کرنے کی بجائے جامعات کی زائداراضی( جس پرنئے کمپلیکس تعمیرکرنے کامنصوبہ توہے مگرتاحال کوئی تعمیرنہیں کی گئی ) کوفروخت کرکے مالکان کورقم ادائیگی کافیصلہ کیا۔اے این پی اراضی فروختگی کی راہ میں حائل ہوچکی ہے سابق وزیراعلیٰ امیرحیدرہوتی نے نہ صرف مردان میں اسکے خلاف پریس کانفرنس کی بلکہ مئیرمردان حمایت اللہ مایارنے اراضی خریدنے والوں سے نمٹنے کااعلان بھی کیاہے ۔ان کاکہناتھاکہ مردان میں حکومتی حمایت یافتہ لینڈمافیاکی نظریں جامعات کی اراضی پرٹکی ہوئی ہیں۔ خریداری کے وقت ان زمینوں کی ویلیوکوئی خاص نہیں تھی مگراب یہ کمرشل اراضی میں تبدیل ہوچکی ہے اے این پی کاکہناہے کہ وہ یہ اراضی حکومتی حمایت یافتہ لینڈمافیاکواونے پونے دامو ں فروخت کرنے کے منصوبے کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیگی ۔اے این پی نے اس سلسلے میں18اگست کومردان میں آل پارٹیز کانفرنس منعقدکرنے کااعلان کیاہے اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ بارکاتعاون بھی حاصل کرلیاگیاہے۔

صوبائی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے رکن احمدکریم کنڈی کے ایک سوال کے جواب میں انکشاف ہواہے کہ بی آرٹی منصوبہ یومیہ 90لاکھ روپے کاخسارہ کررہی ہے۔بس سروس کاسالانہ خرچہ5ارب32کروڑروپے ہے ۔اسکی روزانہ آمدن54لاکھ جبکہ یومیہ خسارہ90لاکھ روپے تک پہنچ چکاہے ۔یہ منصوبہ بناتے وقت دعویٰ کیاگیاتھاکہ منصوبے کوحکومت کوئی سبسڈی نہیں دے گی بلکہ یہ منافع بخش ہوگا۔اب آئے روزخسارے کی داستانیں سامنے آرہی ہیں ۔یادرہے اس منصوبے کیساتھ بین الاقوامی کلائمیٹ چینج فنڈزسے بھی تعاون ہورہاہے جبکہ اس کاکرایہ بھی فی سٹاپ 50روپے ہے اسکے باوجوداگرخسارہ ہورہاہے تواسے بلاشبہ ً مس منیجمنٹ اورکرپشن کاشاخسانہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔

Aqeel Yousafzai editorial

پشتونوں کی قربانیوں کا اعتراف

پشتونوں کی قربانیوں کا اعتراف

عقیل یوسفزئی

اسلام آباد میں نیشنل علماء، مشائخ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ پشتونوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور ان کی قربانیوں کا قومی سطح پر اعتراف کرتے ہوئے خوارج اور ان کی سرپرستوں کی کوششوں کے باوجود خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں امن کی بحالی کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔ آرمی چیف نے ضم قبائلی اضلاع کے عوام کا بطورِ خاص ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان نے ایک پڑوسی اسلامی ملک کے لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی اور وہاں امن کے قیام میں اپنا اہم کردار ادا کیا تاہم اس نے خوارج ( دہشت گرد) کی سرپرستی کی جس کے نتیجے میں پاک فوج اور پاکستان کو خوارج کے خلاف فساد فی الارض کے خاتمے کے لئے کارروائیاں کرنی پڑیں اور پاکستان کے عوام کے تعاون سے ان عناصر کا خاتمہ کرکے دم لیں گے۔ انہوں نے ڈیجیٹل دہشتگردی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور اس کی افواج کے خلاف منفی پروپیگنڈا کو کسی صورت برداشت برداشت نہیں کیا جاسکتا اور انتشاری قوتوں کے ساتھ بھی آئین ، قانون کے مطابق سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ کانفرنس سے وزیراعظم شہباز شریف اور جید علماء نے بھی خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان سے دہشتگردوں اور انتشاریوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔
یہ بات قابل ستائش ہے کہ آرمی چیف نے اتنے اہم فورم نہ صرف یہ کہ ریاست کے دفاع کے زمہ دار ادارے یعنی فوج کی جانب سے کی ترجیحات کا دوٹوک الفاظ میں اظہار کیا بلکہ دہائیوں سے جاری دہشت گردی اور بدامنی کے دوران خیبرپختونخوا خصوصاً قبائلی علاقوں اور عوام کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو خراج تحسین بھی پیش کی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پشتون بیلٹ بوجوہ جاری دہشت گردی کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اور افغانستان کی عبوری حکومت کی سرپرستی میں اگست 2021 کے بعد خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ بعض دیگر ریاست مخالف گروپوں اور ان کی سرپرستوں کے باعث ریکارڈ حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اس دوران کوشش کی گئی کہ مختلف واقعات کی آڑ میں پشتونوں کو ریاست سے بدظن کرکے سیاسی اور سماجی انتشار کا راستہ ہموار کیا جائے ۔ اس ضمن میں صوبے کی حکمران جماعت سمیت بعض دیگر نے بھی پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے تاہم عوام کی اکثریت متعدد جایز شکایات کے باوجود ریاست کے ساتھ کھڑی رہی اور انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ تصادم اور کشیدگی سے گریز کرکے پرامن سیاسی جہدوجہد کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا جائے ۔ آرمی چیف کی جانب سے ان کی قربانیوں اور اس رویے کی ستائش سے جہاں قربانیاں دینے والوں کی ہمت افزائی ہوئی ہے وہاں امن کے قیام کے لیے روزانہ کی بنیاد پر قربانیاں دینے والے سیکورٹی فورسز کے نوجوانوں کو یہ پیغام بھی جائے گا کہ ان کی قومی اور عسکری قیادت یکسو ہو کر ان کے پیچھے کھڑی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ہمارے پالیسی سازوں سے بعض غلطیاں اور زیادتیاں ہوئی ہوں گی تاہم بحیثیت ایک قومیت پشتون پاکستانی ریاست کے دوسرے بڑے اسٹیک ہولڈر کے طور پر پاکستان کی سلامتی ، استحکام اور ترقی کے لیے ہر دور میں ایک اہم اور مثبت کردار ادا کرتے آرہے ہیں۔ ان کو خطے کی جیو پولیٹیکل اسٹیٹس کے تناظر میں ریاست پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانا نہ صرف ریاست بلکہ تمام سیاسی قوتوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ پشتون بیلٹ صدیوں سے مختلف عالمی اور علاقائی پراکسیز کا مرکز رہا ہے اور حالیہ تاریخ میں بھی اس بیلٹ کو مختلف نوعیت کے سیاسی ، سماجی اور معاشی چیلنجر سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز جنگ زدہ علاقوں میں امن کے قیام کے علاوہ یہاں کے عوام کی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کریں کیونکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے دروازوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔