Aqeel Yousafzai editorial

ڈیرہ اسماعیل خان کی سیکورٹی ، انتظامی مسائل

ڈیرہ اسماعیل خان کی سیکورٹی ، انتظامی مسائل

یہ بات قابل تشویش ہے کہ وزیر اعلیٰ ، گورنر اور انسپکٹر جنرل پولیس تین اہم صوبائی عہدیداروں کا ہوم ٹاؤن یعنی ڈیرہ اسماعیل خان شدید مشکلات اور مسائل سے دوچار ہے تاہم تینوں اہم عہدے داران کو نہ تو اپنے شہر اور ضلع کے ان مسائل سے کوئی دلچسپی ہے اور نا ہی وہ خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان رواں برس کے دوران خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی انڈیکس میں دہشت گرد حملوں کی تعداد کے لحاظ سے وزیرستان سے بھی اوپر رہا ہے جبکہ اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کی مجموعی تعداد بھی یہاں سب سے زیادہ ہے ۔ اس ضلع کے علاقے درابن نے ایک نو گو ایریا کی شکل اختیار کرلی ہے مگر ان تمام سنگین مسائل کا کوئی حل ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وزیر اعلیٰ کو دوسرے معاملات ، تصادم کی سیاست اور پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ سے فرصت نہیں ملتی۔

ان کے بھائی فیصل امین گنڈاپور اس علاقے کے ایم این اے ہیں جبکہ ان کے ایک اور بھائی بھی اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں یا ہیں مگر اس حکمران خاندان اور ان کی پارٹی نے ڈیرہ اسماعیل خان کو دہشت گردوں ، بھتہ خوروں اور اغواء کاروں کی رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ فیصل امین گنڈاپور نہ صرف پشاور اور اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں بلکہ ان کی ” سرگرمیوں” پر سیاسی اور صحافتی حلقوں میں کافی عرصے سے بحث بھی جاری ہے ۔ اس بحث میں غیر قانونی طور پر رولز آف بزنس کی خلاف ورزیوں کے ذریعے بعض سرکاری اجلاسوں کی صدارت اور تعیناتیوں اور تبادلوں میں شامی روڈ کے ایک مخصوص ” بنگلے ” کی سرگرمیوں سے تقریباً ہر متعلقہ بندہ اور ادارہ باخبر ہیں مگر حکمران جماعت نے ان تمام سرگرمیوں پر اسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

جس طریقے سے وزیر اعلیٰ نے ترنول جلسہ ملتوی کرنے کے ڈرامے کے دوران کھلے عام بعض سرکاری اہلکاروں اور پارٹی کارکنوں میں نقد ” انعام ” بانٹنے کی سخاوت کا مظاہرہ کیا اور جس طریقے سے ان کے ترجمان بیرسٹر سیف نے ان کا دفاع کیا اس نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے تاہم ہمیں اس نوعیت کی سخاوت اور غریب پروری ان کے اپنے پسماندہ ضلع یعنی کے ان غریب عوام کے لیے کھبی نظر نہیں آئی جو بقول گورنر اور ماہرین شام کے بعد گھروں سے بھی نہیں نکل سکتے۔

اس صورتحال میں یہ سوال اٹھانا ڈی آئی خان کے عوام کے علاوہ پورے صوبے کی سطح پر اُٹھانا سب حلقوں کا حق بنتا ہے کہ جو وزیر اعلیٰ اور ارکان اسمبلی اپنے آبائی شہر اور ضلع کی سیکورٹی اور حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتے ان سے ایک جنگ زدہ صوبے کی تعمیر وترقی کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔

— عقیل یوسفزئی

Wisal Muhammad Khan

جلسے نہیں کارکردگی دکھاؤ

جلسے نہیں کارکردگی دکھاؤ

برصغیر پاک و ہند میں عوامی جلسوں کا رواج خاصا پرانا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کی جنگ انہی جلسوں کے ذریعے لڑی گئی۔ آزادی کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے بلکہ اب اس میں شدت آ چکی ہے۔ حالیہ عرصے میں تحریک انصاف نے سیاسی جلسوں کو ایک نئی شکل دے دی ہے جو مثبت کی بجائے منفی ہے۔ جلسے کرنا اور ان کے ذریعے عوام تک اپنا پیغام پہنچانا کوئی معیوب بات نہیں مگر بشرطیکہ ان سیاسی سرگرمیوں سے عوام کے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں اور کاروبار مملکت میں خلل نہ پڑے۔

کسی جماعت نے جلسہ کرنا ہے تو مہذب ممالک اور اقوام کی طرح اس کے لیے شرکاء پر امن اور مہذب طریقے سے آئیں اور مقررہ مقام پر اپنا پروگرام منعقد کریں، مگر یہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ سیاسی جلسوں کے لیے دور دراز سے شرکاء کی آمد جلوسوں کی صورت میں ہوتی ہے اور وہ ان جلوسوں کے لیے سڑکوں اور شاہراہوں کو بند کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ چھوٹی بڑی شاہراہوں اور گنجان آباد شہری علاقوں میں ٹریفک جام کے شدید مسائل جنم لیتے ہیں، عوام کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور انہیں ان جلسوں کے سبب شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خصوصاً تحریک انصاف اپنے جلسوں سے کئی بڑے شہروں اور علاقوں کی زندگی متاثر کر دیتی ہے۔ بلکہ اس کے جلسے 9 مئی سے تشدد کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ اب یہ جلسے کم اور پرتشدد مظاہرے زیادہ لگتے ہیں، اس لیے حکومت پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت دینے میں تذبذب کا شکار ہو جاتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی قیادت پر امن اجتماع کا وعدہ کر کے اسے متشدد مظاہرے میں بدل دیتی ہے۔

ماضی قریب کے متعدد واقعات شاہد ہیں کہ اس جماعت نے قومی املاک پر حملے کیے، توڑ پھوڑ کی، سرکاری اہلکاروں کو مارا پیٹا، زدوکوب کیا، ڈنڈے مار کر سر پھاڑے گئے اور ریڑھ کی ہڈیاں تک توڑ دی گئیں۔ قومی ٹی وی پر حملہ کیا گیا، عمارت پر قبضہ کیا گیا اور نشریات گھنٹوں بند رکھی گئیں، مظاہرین پارلیمنٹ میں گھس گئے، وہاں خیمے لگا دیے، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے راستے مہینوں بند رکھے گئے، 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے، جلاؤ گھیراؤ کیا گیا اور نجی و قومی املاک کو قابل ذکر نقصان سے دوچار کیا گیا۔ اس لیے حکومت تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت دینے سے کتراتی ہے۔

پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں جلسے کی اجازت طلب کی جس پر اس کی سابقہ طرز عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے ضلعی انتظامیہ نے اجازت دینے سے گریز کیا۔ جو بالکل درست اقدام تھا کیونکہ تحریک انصاف کے قائدین جس طریقے سے جلسے کو پرتشدد ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہے اس طرز عمل پر کوئی بھی ریاست جلسے کی اجازت نہیں دے گی۔

تحریک انصاف کے پاس چونکہ خیبرپختونخوا کی حکومت ہے اس لیے وزیراعلیٰ نے اس جلسے کے لیے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا، وفاق پر چڑھائی اور قبضے کے بیانات دیے، کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا، جلسہ نہ کر سکے تو سیاست چھوڑ دیں گے، چھوڑیاں پہن لیں گے جیسے عامیانہ زبان کا استعمال کیا گیا اور باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ یہ کوئی پرامن جلسہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے شرکاء اڈیالہ جیل جائیں گے، وہاں سے بانی پی ٹی آئی کو رہا کروائیں گے اور اس کی قیادت میں پہلے جی ایچ کیو پر حملہ آور ہوں گے، وہاں اپنی مرضی کے آرمی چیف لگوا کر اسلام آباد کا رخ کریں گے اور انقلاب برپا کرکے حکومت پر قبضہ کریں گے۔

ان تصورات اور خیالات کے پیش نظر حکومت جلسے کی اجازت کیوں کر دے سکتی تھی؟ جلسے کے لیے مرو اور مر جاؤ کا ماحول بنانے کی کوشش اس کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر لوٹ اور لٹا رہی ہے، اسے جلسوں کے لیے استعمال کر رہی ہے، جلوسوں کے ہمراہ کرینیں اور بلڈوزر جو کہ قومی ملکیت ہیں، استعمال ہوتے ہیں، صوبائی حکومت عوام کو ریلیف دینے سے اس لیے انکاری ہے کہ اس کے پاس فنڈز کی کمی ہے، یونیورسٹیوں کی زمینیں نیلام کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے مگر پانچ پانچ ہزار کے نوٹ جلسہ شرکا میں بانٹنے کی ویڈیوز جاری کی جاتی ہیں جو عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔

حکومتوں کا کام بڑھکیں اور ڈینگیں مارنا نہیں ہوتا بلکہ عوام کو سانس لینے میں سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے۔ یہاں حکومت نے لوگوں کو جلسوں پر لگا دیا ہے اور آئے روز ‘جلسہ ہے’ کی گردان سے عوام کو بہلایا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومت کے یہ لچھن کسی طور ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ اس طرز عمل کے پیش نظر صوبے کے سنجیدہ و فہمیدہ حلقے وفاقی حکومت سے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی استدعا کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے یہ حرکات و سکنات گورنر راج کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔

یہاں امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے، آئے روز پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں، جھڑپوں میں جوان اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے، حکومت کے اندر سے کرپشن کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، صوبہ افراتفری کا شکار ہے، چیف سیکرٹری اور آئی جی کو سرکاری اہلکاروں کے لیے ہدایات جاری کرنا پڑتی ہیں کہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے دور رہیں حالانکہ یہ ہدایات وزیراعلیٰ کو جاری کرنا ہوتی ہیں۔

اس افراتفری سے تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت زوال پذیر ہو چکی ہے۔ گنڈا پور حکومت پانچ ماہ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی منصوبہ سامنے نہ لا سکی۔ سابقہ عمران خان حکومت کی طرز پر میڈیا کے ذریعے حکومت چلائی جا رہی ہے۔ یہ طرز عمل کسی صورت حکمرانوں کو زیب نہیں دیتا۔ وزیراعلیٰ اور حکومت کو پے درپے دو معاملات میں سبکی کا سامنا ہے، ایک تو ہفتے بھر سے حکومتی کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام ہیں، کرپشن کی داستانیں سنانے والے وزیر کو ہی برطرفی کا پروانہ تھما دیا گیا ہے، اوپر سے وہ جلسہ منسوخ ہوا جس کے لیے وزیراعلیٰ سمیت دیگر رہنما بڑی بڑی ڈینگیں اور فلمی ڈائیلاگ مارتے رہے۔

تحریک انصاف قائدین خصوصاً وزیراعلیٰ کو ذمہ دارانہ طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہیں تصوراتی دنیا کو خیر باد کہنا ہوگا، یہاں بنگلہ دیش والے خواب پورے ہونا ممکن نہیں۔ عوام اب جلسوں اور محاذ آرائی کی سیاست سے اکتاہٹ کا اظہار کر رہی ہے، انہیں مزید بہلانے کی بجائے کارکردگی دکھانی ہوگی۔

— وصال محمد خان

shoukat khanum squash championship

شوکت خانم کے پی جونیئر بوائز و گرلز سکواش چیمپئن شپ اختتام پذیر

شوکت خانم کے پی جونیئر بوائز و گرلز سکواش چیمپئن شپ اختتام پذیر

پشاور(سپورٹس رپورٹر) شوکت خانم کے پی جونیئر بوائز و گرلزسکواش چیمپئن شپ اختتام پذیر ہوگئی‘قمرزمان سکواش چیمپئن شپ پر ہونیوالی چیمپئن شپ میں 120 سے زائد کھلاڑیوں نے مختلف کیٹگریز کے مقابلوں میں شرکت کی گزشتہ روز فائنل مقابلوں کے موقع پر چیف میڈیکل آفیسر شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال پشاور ڈاکٹر عاصم یوسف مہمان خصوصی تھے ان کے ہمراہ ڈائریکٹر مارکیٹنگ محمد عامر‘ریجنل مینجر اسد علی‘سکواش لیجنڈ اور کے پی سکواش ایسوسی ایشن کے چیئرمین قمرزمان‘ ڈائریکٹر سپورٹس آپریشنز انور کمال برکی‘ جنرل سیکرٹری منصور زمان‘ چیف ریفری‘ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس کے چیف کوچ اور چیف آرگنائزر منور زمان‘ سکواش لیجنڈ محب اللہ خان‘ فنانس سیکرٹری وزیر محمد‘ ایگزیکٹو ممبران میں شیر بہادر‘فضل خلیل‘طاہر اقبال ‘محمد وسیم‘امجد خان اور چیف ریفری عادل فقیر بھی موجود تھے‘ گزشتہ روز ہونیوالے انڈر15 کے فائنل میں محمد شاہ زیب نے عبداللہ زمان کیخلاف میچ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گیارہ نو‘ گیارہ چار اور گیارہ سات سے کامیابی حاصل کی‘انڈر17 کے فائنل میں پشاور ہی کے ابراہیم زیب نے احمد ریان خلیل کے خلاف دس بارہ‘ گیارہ تین ‘گیارہ پانچ اور گیارہ آٹھ سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے ٹرافی اپنے نام کی‘ انڈر19کے فائنل میں ایم اذان خلیل نے یاسین خٹک کے خلاف سخت مقابلے کے بعد بارہ دس‘ گیارہ تین ‘آٹھ گیارہ‘ نو گیارہ اور گیارہ چھ سے کامیابی حاصل کی جبکہ ویمنز فائنل میں ثناءبہادر نے ماہ نور علی کے خلاف سخت مقابلے کے بعد بارہ دس‘ دس بارہ‘ گیارہ آٹھ اور گیارہ سات سے کامیابی اپنے نام کی آخر میں کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے گئے۔

WEBDESK

سٹار فٹنس کلب کے پش اپ مقابلوں کا انعقاد

سٹار فٹنس کلب کے پش اپ مقابلوں کا انعقاد

سٹار فٹنس کلب کے زیر اہتمام جشن آزادی کے حوالے سے پش اپ مقابلوں میں آذان خان نے پہلی، حیدر خان نے دوسری اور یاسین خان نے تیسری پوزیشن حاصل کی تفصیلات کے مطابق سٹار فٹنس کلب کے سینئر کوچ عثمان غنی کے زیر نگرانی گزشتہ روز پش اپ کے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا جس میں دو درجن سے زائد تن ساز کھلاڑیوں نے حصہ لیا اس موقع پر باقی کلبوں کی کوچز اور ججز بھی موجود تھے مقابلے کی خاصیت یہ تھی کہ چھ سالہ کمسن بچے نے 110 پش اپ لگاکر سب کو حیران کردیا اور پہلی پوزیشن اپنے نام کی اسی طرح حیدر خان نے پچاس اور یاسین خان نے پچیس پش اپ لگاکر بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشنیں لیں آخر میں کھلاڑیوں کو سرٹیفیکیٹس اور ٹرافیوں سے نوازا گیا سینئر کوچ عثمان غنی نے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اس قسم کی مثبت سرگرمیاں نوجوان نسل کےلئے انتہائی ضروری ہیں جس سے نہ صرف ان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے بلکہ وہ ذہنی و جسمانی طور پر بھی مضبوط رہتے ہیں۔

weather

پی ڈی ایم اے موسمی انتباہ

خیبرپختونخوا کے بیشتر اضلاع میں پیر کے روز سے مون سون بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہونے کا امکان ہے۔ 25 اگست کی رات سے طاقتور مون سون ہوائیں صوبے کے بالائی اور وسطی علاقوں میں داخل ہوں گی۔ دیر،چترال،سوات، کوہستان، مالاکنڈ، باجوڑ، شانگلہ، بٹگرام، بونیر،کوہاٹ، باجوڑ، مہمند،خیبر، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہریپور، مردان، چارسدہ
پشاور،ہنگو، کرم، جنوبی و شمالی وزیرستان، بنوں اورڈی آئی خان میں تیزہواؤں اورگرج چمک کیساتھ موسلادھار بارش کا امکان ہے۔ بارشوں کا یہ نیا سلسلہ بدھ 28 اگست تک وقفے وقفے سے جاری رہے گا۔ 26 سے 28 اگست کے دوران بارشوں کے باعث صوبہ کے بالائی اضلاع میں لینڈ سلائیڈنگ،وسطی/ میدانی علاقوں میں طغیانی/فلش فلڈ/اربن فلڈنگ کا بھی خطرہ ہے۔ پی ڈی ایم اے کی جانب سے تمام ضلعی انتظامیہ کو موسمی صورتحال کے پیش نظر الرٹ جاری ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو آندھی/جھکڑ چلنے اورگرج چمک کے باعث کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے پیشگی نمٹنے کیلیے ہدایات جاری کردیں۔ کسی بھی نا خوشگوار واقعے سے پیشگی نمٹنے کیلئے ضلعی انتظامیہ کو چھوٹی بڑی مشینری کی دستیابی یقینی بنانے کی بھی ہدایت ہے۔