Wisal Muhammad Khan

سیاست کا یہ انداز

سیاست کا یہ انداز

وطن عزیز میں ہمہ اقسام کی جماعتیں سیاست میں سرگرم ہیں جو اپنے اپنے طریقوں سے ووٹرز کو راغب کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی مذہب کارڈ کھیل رہا ہے، کوئی لسانیت کی بنیاد پر سیاست کر رہا ہے، تو کوئی قومیت کو اپنی سیاست کا محور بنائے ہوئے ہے۔

مگر ان سب میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جس کے پاس اپنا کوئی پروگرام نہیں۔ کبھی وہ مذہبی ٹچ کا سہارا لیتی ہے، کبھی قوم پرست جماعت بن جاتی ہے، تو کبھی امریکی مخالفت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ اس جماعت کا نام پاکستان تحریک انصاف ہے۔ نام اور جماعت کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو نہ ہی یہ کوئی تحریک ہے اور نہ ہی اسے انصاف سے دور دور کا کوئی واسطہ ہے بلکہ اس کی ساری سیاست دوسروں کے خلاف بیان بازی کی مرہون منت ہے۔

حالیہ ملکی صورتحال میں فوج نے پہلی بار اپنے ایک اہم عہدیدار کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس اقدام کو ملکی سطح پر سراہا گیا ہے کیونکہ جنرل (ر) فیض حمید کے کردار سے عوام کی غالب اکثریت آگاہ ہے اور سیاست، عدالت، حکومت اور ریاست کے معاملات میں ان کی بے جا مداخلت سے ملک کے بیشتر حلقے نالاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گرفتاری اور کورٹ مارشل پر ملک بھر میں سکون کا سانس لیا گیا۔

فیض حمید کا معاملہ ایسا ہے جس سے عمران خان براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ کسے نہیں معلوم کہ عمران خان کی حکومت کن حالات میں، کیسے اور کس کی مہربانی سے بنی اور اس بنی بنائی حکومت کو انہوں نے کیسے اپنی نااہلی کے سبب گنوا دیا۔ حکومت گنوانے کے بعد شاید انہوں نے ذہنی توازن بھی کھو دیا ہے، اس لیے کہ اس دوران دنیا کا ایسا کوئی الزام نہیں جو انہوں نے فوج کے سر نہ تھوپا ہو۔

فوج کا نام اس طرح اپنی سیاست کے لیے کسی دیگر جماعت نے استعمال نہیں کیا۔ فوج کو اس طرح سیاسی بیان بازیوں کا موضوع کسی سیاسی راہنما نے نہیں بنایا اور اسے کسی بھی فرد نے اس طرح بدنام کرنے کی کوشش نہیں کی۔ فوجی قیادت کو الٹے سیدھے القابات سے نوازا گیا اور ملک دشمن تک کہا گیا۔

حکومت ملنے سے قبل تحریک انصاف کی سیاسی عمارت دوسرے سیاستدانوں کی ہتک اور لغو الزامات پر ایستادہ تھی، جبکہ حکومت گنوانے کے بعد اس کی توپوں کا رخ فوج کی جانب مڑ گیا۔ ان توپوں سے فوج پر غلیظ گولہ باری کی گئی، اسے سوشل میڈیا ٹرینڈز کے ذریعے ٹارگٹ کیا گیا، اہم عہدیداروں کی حادثاتی شہادت تک کو نہیں بخشا گیا۔ ان مذموم حرکات سے فوج کو مرغوب نہیں کیا جا سکا تو 9 مئی کو براہ راست فوجی تنصیبات پر حملہ کروایا گیا۔

تفتیشی اداروں کی کوتاہی اور ان کے طریقہ کار میں ان گنت خامیاں نہ ہوتیں تو اب تک کئی راہنماؤں کو سزا سنائی جا چکی ہوتی۔ ایک سال کا عرصہ گزر جانے پر یہ سمجھا گیا کہ لوگ 9 مئی کی غنڈہ گردی بھول چکے ہیں، اس لیے جس کے خلاف حملے کیے گئے اسی پر ان کا الزام دھرا دیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات فوج نے خود کروائے۔

پچھلے ماہ جب فوج نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کیا گیا تو عمران خان کا بیان آیا کہ یہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے، مگر دوسرے دن کہا گیا کہ فیض حمید ہمارا اثاثہ تھے جنہیں ضائع کر دیا گیا۔

ایک دن کہا جاتا ہے کہ فیض حمید فوج کا اندرونی معاملہ ہے، دوسرے دن انہیں اثاثہ قرار دیا جاتا ہے، تیسرے دن ان کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کروانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل کسی بھی کورٹ مارشل کی کارروائی اوپن کورٹ میں نہیں ہوئی۔

مگر چونکہ عمران خان نے تمام اداروں کا بیڑا غرق کرنے، ہر ادارے کو متنازعہ بنانے اور خود کو میڈیا میں اِن رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کہتے رہنا ہے کیونکہ یہ ان کی سیاسی ضرورت ہے اور وہ یہ ضرورت پوری کرنے کے لیے آئے روز نت نئی بیان بازیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب فوج کے معاملات سے کسی سیاستدان کو لینا دینا نہیں تو اوپن کورٹ ٹرائل کا مطالبہ کس خوشی میں؟

اس سے ایک ہی بات واضح ہو رہی ہے کہ گزشتہ دو برسوں کی ریاضت کے بعد بھی وہ فوج میں دراڑ ڈالنے میں ناکام رہے۔ ان کی منشا کے مطابق فوج نے انہیں اقتدار دلانے کے لیے اپنے کاندھے استعمال نہیں کیے اور اس نااہل شخص اور اس کی نااہل ٹیم و پارٹی کو ملک و قوم پر مسلط نہیں ہونے دیا۔ جس کا بدلہ وہ سیاسی بیان بازی کے ذریعے فوج کے ہر اقدام اور ہر معاملے کو متنازعہ بنا کر لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہاں یہ امر بھی باعث تعجب ہے کہ ایک ملزم یا سزا یافتہ مجرم کو یہ سہولت کس نے فراہم کی کہ وہ روزانہ اور ہر پیشی پر پریس ٹاک کریں، قومی سلامتی کے اداروں پر سیاست کرتے رہیں اور انہیں “کچھ بھی” کہنے کی اجازت دی گئی ہے؟

اگر انہیں یہ سہولت عدالتوں کی نظر میں ضروری ہو تو قومی سلامتی کے اداروں کے حوالے سے پابندی لگائی جائے اور عدالتوں، ججوں کے بارے میں بولنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کی دانشمندانہ اور پرمغز بیان بازی سے عدالتیں مستفید ہوں۔

پارٹی راہنماؤں کی جانب سے اسلام آباد جلسے میں جو زبان استعمال کی گئی وہ کسی صورت سیاستدانوں کو زیب نہیں دیتی۔ سیاست کا یہ انداز کسی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ اس ناروا روش کا سلسلہ منقطع کرنا ہوگا۔

— وصال محمد خان

اسلام آباد سمیت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں زلزلے کے شدید جھٹکے

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ زلزلے کے جھٹکے لاہور ملتان، فیصل آباد، میانوالی، بھکر، کمالیہ، خانیوال، بھلوال، چنیوٹ، حافظ آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، گجرات، سرگودھا اور جھنگ میں محسوس کیے گئے۔ اس کے علاوہ ساہیوال، چیچہ وطنی، بورے والا، پھولنگر، حجرہ شاہ مقیم، شاہکوٹ، سانگلہ ہل، تلہ گنگ اور چکوال میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ خیبر پختونخوا میں پشاور، شمالی وزیرستان، ڈی آئی خان، لکی مروت، سوات، شانگلہ، بونیر، لوئر دیر، ملاکنڈ، ٹانک اور چترال میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ زلزلے کی شدت کے باعث خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف شہروں میں عوام گھروں اور دفاتر سے باہر نکل آئی اور کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیا۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کے جھٹکے دوپہر 12 بج کر 28 منٹ پر محسوس کیے گئے جس کی شدت 5.7 اور زیر زمین گہرائی 10 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی، زلزلے کا مرکز ڈی جی خان کے قریب تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق زلزلے کے جھٹکے بھارتی دارالحکومت نئی دلی کے علاوہ اترپردیش، ہریانہ، بھارتی پنجاب اور مقبوضہ کشمیرمیں بھی محسوس کیے گئے۔

Khyber Pakhtunkhwa Governor's participation in Agricultural University Peshawar event

گورنر خیبرپختونخوا کا بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی پر پیغام

گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی پر پیغام

قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت اور ان کی بصیرت ہماری قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی اصولی سیاست، بے لوث قیادت اور مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ آج ہمیں ان کے فرمودات کی روشنی میں پاکستان کو مضبوط اور خوشحال بنانے کا عہد کرنا چاہیے۔ قائد اعظم نے ہمیں اتحاد، تنظیم اور یقینِ محکم کا درس دیا تھا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر وطن عزیز کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کریں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ قائد اعظم کا مشن پاکستان کو ایک ترقی یافتہ، امن پسند اور خوشحال ملک بنانا تھا، جسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ فیصل کریم کنڈی

After winning the World Youth Scrabble Championship, the Pakistan team received a grand welcome on their arrival home

ورلڈ یوتھ اسکریبل چیمپئن شپ جیتنے کے بعد پاکستان ٹیم کا وطن پہنچنے پر شاندار استقبال

ورلڈ یوتھ اسکریبل چیمپئن شپ کا ٹائٹل جیتنے کے بعد پاکستان ٹیم وطن پہنچ گئی، جہاں ورلڈ چیمپئن عفان سلمان سمیت پوری ٹیم کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ورلڈ یوتھ اسکریبل چیمپئن شپ کی فاتح پاکستان ٹیم سری لنکا سے وطن واپس پہنچ گئی، جناح ٹرمینل کراچی پر ٹیم کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ائیرپورٹ پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ کھلاڑیوں کے اہل خانہ اور مداحوں نے کھلاڑیوں کو پھولوں کے ہار پہنائے۔

واضح رہے کہ پاکستان نے ریکارڈ پانچویں بار ورلڈ یوتھ اسکریبل چیمپئن شپ جیتی ہے۔ 16 سالہ عفان سلمان ورلڈ یوتھ اسکریبل چیمپئن بنے۔ پاکستان ریکارڈ 5 مرتبہ ورلڈ یوتھ چیمپئن شپ جیتنے والا پہلا ملک ہے۔ چیمپئن شپ کی ٹیم ٹرافی بھی پاکستان نے جیتی۔ ایونٹ میں پاکستان کے 4 پلئیرز نے ٹاپ 10 میں فنش کیا۔

Aqeel Yousafzai editorial

ناین الیون کے بعد پاکستان انڈر اٹیک کیوں؟

ناین الیون کے بعد پاکستان انڈر اٹیک کیوں؟

آج کے دن یعنی 11 ستمبر کو دنیا کے واحد سپر پاور امریکہ پر القاعدہ نے اس نوعیت کے حملے کئے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ مسافر جہازوں کو ہائی جیک کرتے ہوئے امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کباڑا کرکے دنیا کے سامنے امریکہ کے غرور کو توڑا گیا اور اس تمام پراسیس کو سامنے رکھتے ہوئے کہا گیا کہ اس کی پلاننگ افغانستان میں طالبان حکومت کے زیرِ انتظام رہنے والے اسامہ بن لادن نے کی ہے ۔ اس کے فوراً بعد نہ صرف افغانستان کے خلاف گھیرا تنگ کردیا گیا اور اس پر نیٹو کی زیر قیادت 20 سالہ طویل جنگ مسلط کی گئی بلکہ پاکستان کو بھی ایک انتہائی پیچیدہ نوعیت کی جنگ میں دھکیل دیا گیا جس کے نتائج اور اثرات پاکستان امریکی انخلاء اور طالبان کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے باوجود آج بھی بدترین قسم کی دہشتگردی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔

ناین الیون کے بعد امریکہ کی تمام توجہ فوجی کارروائیوں پر مرکوز رہی اور اس کے مسلط کردہ افغان حکمرانوں کو عوام کی تائید حاصل نہ ہوسکی جس کے بعد سال 2004 کے بعد طالبان اور ان کے اتحادی پھر سے متحد اور متحرک ہونے لگے اور انہوں نے لمبے عرصے تک کچھ اس انداز میں امریکہ اور نیٹو کی مزاحمت کی کہ اگست 2021 کو دوحہ ایگریمنٹ کے تحت ان بڑی طاقتوں کو ایک بار پھر افغانستان کو طالبان کے حوالے کرکے بھاگنا پڑا۔

ناین الیون کے حملوں میں جو لوگ شامل تھے ان میں ایک بھی پاکستانی یا افغانی نہیں تھا بلکہ سب کے سب عرب تھے مگر اس کے سنگین نتائج ان دو ممالک کو بھگتنے پڑے اور جب افغان طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی تو افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ بوجوہ پاکستان منتقل ہوگئی اور اس وقت بلاشبہ پاکستان کے دو سرحدی صوبے یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان دو طرفہ جنگ کی لپیٹ میں ہیں۔

امریکی دستاویزات کے مطابق اس بیس سالہ جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے تقریباً 19000 فوجی اور دیگر اہلکار ہلاک اور 40000 زخمی ہوئے ۔ رپورٹس کے مطابق اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 3 سے ساڑھے چار کھرب ڈالرز جھونک دیے ۔ دوسری جانب پاکستان میں ہونیوالی ہلاکتوں کی تعداد 80 ہزار سے زائد رہی جس میں فورسز کے تقریباً 18000 اہلکار اور افسران بھی شامل ہیں ۔ پاکستان کی معیشت اور معاشرت کو بھی بے پناہ نقصان پہنچا تاہم سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کو عالمی برادری میں نہ صرف بدنام کیا گیا بلکہ اتنے نقصانات اور قربانیوں کے باوجود یہاں پھر بھی امن قائم نہیں ہوسکا اور اگست 2021 کے بعد پاکستانی ریاست دہشت گردی کے خلاف ایک اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔

—عقیل یوسفزئی

The 76th death anniversary of Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah is being celebrated todayقائداعظم

قائداعظم محمد علی جناح کی آج 76ویں برسی منائی جارہی ہے

ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے الگ ریاست قائم کرکے برصغیرکا نقشہ تبدیل کر کے انگریز اور کانگریس کو تنہا شکست دینے والی تاریخ ساز شخصیت قائداعظم محمد علی جناح کی آج 76 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے گاندھی اور نہرو جیسے گھاگ سیاستدانوں کو سیاسی میدان میں مات دی۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے اپنوں کے گِلے دور کئے اور انہیں پاکستان کی جدوجہد میں شامل کیا۔

پہلے کانگریس کے ساتھ آزادی کی جدوجہد میں کاندھے سے کاندھا ملایا لیکن جب احساس ہوا کہ بٹوارے کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو مسلمانوں کیلئے علیحدہ ریاست کیلئے دن رات ایک کردیا۔آزادی کے بعد بکھرے ہوئے پاکستان کو مستحکم کرنے کیلئے قائداعظم نے آخری حد تک کوششیں کیں لیکن زندگی نے زیادہ موقع نہ دیا۔اپنی وفات سے پہلے قوم کے نام پیغام میں مستقبل کا راستہ، قائد اعظم نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ “آپ کی مملکت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اب آپ کا فرض ہے کہ اس کی تعمیر کریں۔ قائداعظم محمد علی جناح کا انتقال 11 ستمبر 1948 کو کراچی میں ہوا اور آج ان کی 76 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔