کراس بارڈر ٹیررازم اور سرحدی نگرانی

آصف نثار غیاثی

جب پاکستان کی طرف سے افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے بارڈ مینجمنٹ کے نام سے منصوبے کاآغاز کیاگیاتھاتونہ صر ف افغان حکومت کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی تھی بلکہ بعد میں پاکستانی سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتوں نے بھی اس حوالہ سے تحفظا ت کااظہار کیاتھا مگر آج سب کو تسلیم ہے کہ مئوثر بارڈرمینجمنٹ نے بدامنی کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیاہے ۔کم و بیش اڑھائی ہزار کلومیٹر طویل پاک افغان بارڈر جس کو عرف عام میں ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے۔ عشروں سے مینجمنٹ سے محروم رہا ہے اور یہی وجہ تھی کہ اکثر اوقات اسے ایک لکیر سے زیادہ کی حیثیت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے پھر قباحتیں بھی بڑھتی گئیں جب افغانستان پر روسی یلغار ہوئی تو اس کے بعد سے اس سرحد کی اہمیت بھی بڑھ گئی۔ آج بھی جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے افغان مجاہدین کی حمایت کی آڑ میں عملاً بارڈر کو ختم ہی کر دیا تھا اور لوگوں نے بغیر کسی رکاوٹ کے آنا جانا شروع کر دیا تھا۔ بہرحال انہی 4 عشروں کے دوران اس سرحد کی اہمیت بھی بڑھتی گئی اور ساتھ میں مینجمنٹ کی ضرورت بھی اہمیت حاصل کرتی گئی مگر بدقسمتی سے کبھی بھی اس پر توجہ نہ دی جاسکی۔ ہر حکومت نے اس جانب غفلت اختیاررکھی جس کاخمیازہ پھر قوم کو ہی بھگتنا پڑا۔ ایک اندازے کے مطابق پاک افغان سرحد سے روزانہ 15 سے 20 ہزار افراد بلا روک ٹوک گزرتے تھے۔ ایک بھیڑ لگی ہوتی تھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کرتا تھا کہ اس مقام سے بین الاقوامی سرحد عبور کی جارہی ہے۔  صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگا یا جاسکتا ہے کہ عدالت عظمیٰ تک نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا۔ اسی دوران پاک فوج نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بس بہت ہو چکا۔ اب یہ غیر قانونی آمدورفت بند ہونی چاہیے۔چنانچہ بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے منصوبہ بندی ہونے لگی۔ نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب کے تناظر میں اس بارڈر مینجمنٹ کی اشد ضرورت بھی محسوس کی جارہی تھی۔ اس حوالے سے پاک فوج اور حکومت پاکستان نے یکطرفہ کاروائی سے گریز ہی کیا چنانچہ افغان حکومت کے ساتھ صلاح و مشورہ شروع کیا گیا اور پھر بارڈر مینجمنٹ پر کام شروع ہو گیا’اگرخیبر پختونخواکی با ت کی جائے تو اس کے آٹھ اضلاع پاک افغان سرحد پر واقع ہیں جس کے پار افغانستان کے سات صوبے واقع ہیں۔ جن میں بدخشاں،نورستان ، کنڑ ،ننگرہار،پکتیا،خوست اور پکتیکا شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ساتھ متصل افغان سرحد کی طوالت 1229کلومیٹر ہے۔ اگر تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو سب سے طویل سرحد چتر ال کے ساتھ لگتی ہے۔ اس کی لمبائی 493کلومیٹر ہے جس میں سے پھر 471کلومیٹر سرحد انتہائی بلندی پرواقع اور گلیشیائی علاقوں سے گزرتی ہے۔ دیر پائیں سے متصل پاک افغان سرحد کی طوالت انتالیس۔ باجوڑ کے سا تھ سرحد کی لمبائی پچاس، مہمند کے ساتھ 69، خیبر کے ساتھ 111کلومیٹر، کرم کے ساتھ 191کلومیٹر، شمالی وزیر ستان کے ساتھ 183جبکہ جنوبی وزیر ستا ن کے ساتھ چورانوے کلومیٹر سرحد متصل ہے۔ اس تمام سرحد کی حفاظت پاک فوج کے الیون کور کے ذمہ ہے جس کے جوان جانوں کے نذرانے پیش کرکے دہشتگردوں کے وار اپنے جسموں پرروک کر ہمیں محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ پاک افغان سرحد پر روسی حملے تک امن وامان کی صورتحال بہترین ہوا کرتی تھی۔ یہ پرامن ترین سرحد تصور کی جاتی تھی تاہم 2001ء میں نائن الیون کے بعد امریکی حملے نے افغانستان میں جو آگ دہکائی اس کے شعلوں نے جلد ہی پاک افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقہ جات کو اپنی لپیٹ میں لے لیااور ا سکے بعد جب 2005ء میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی توجہ عراق پر مبذول ہوگئی تو ا ن علاقوں میں عسکریت پسندی تیزی سے پھیلتی چلی گئی کیونکہ افغانستان کی طرف سے دہشتگردوں کی آمد ورفت میں اضافہ ہوتا گیا۔ بلا شبہ 2007 ء سے 2013ء تک کاعرصہ انتہائی خطرناک رہا اور قبائلی علاقہ جات میں عسکریت پسندوں کاراج عملا ً بہت بڑے رقبہ پر قائم ہوگیاتھا۔ مکمل حکومتی رٹ میں موجود علاقے کے حوالے سے جو رپورٹیں سامنے آتی رہیں۔ وہ تشویشنا ک تھیں کیونکہ انکے مطابق اس عرصہ میں صرف چوبیس فیصد رقبہ پر مکمل حکومتی رٹ قائم تھی اس دوران پہلے ضرب عضب اورپھر آپریشن رد الفساد کے ذریعہ تیز رفتارفوجی کاروائی کی گئی اور مختصر مدت میں عسکریت پسندوں کو واپس افغانستان میں دھکیل دیاگیا جبکہ 2007ء سے 2019ء تک کے عرصے میں ان علاقوں میں بارہ بڑے فوجی آپریشن کئے گئے اور لاتعداد سرچ آپریشنز اور چھوٹی جھڑپیں ہوئیں۔ جس میں ایک سے لے کر پانچ ڈویژن تک فوج استعمال ہوئی جبکہ سینتالیس ہزار مربع کلومیٹر رقبہ کو کلیئر کیا گیا جس کے بعدبارڈر پر باڑ لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ اگرچہ یہ فیصلہ کافی عرصہ پہلے کیاگیاتھا مگر اس پر سنجید گی کے ساتھ عملدر آمد کاآغاز ضرب عضب کے بعد کیاگیا۔ جس وقت صرف خیبرپختونخوا کے ساتھ لگنے والی سرحدپرپاک فوج کی طرف سے 1016بارڈر پوسٹیں قائم کی گئی تھیں اس وقت تک افغان حکومت کی طرف سے اتنے ہی علاقے میں محض 208پوسٹیں قائم کی گئی تھیں جو ایک پانچ کا تناسب بنتاہے اس سے نہ صرف سابق افغان حکومت کی غیر سنجیدگی بلکہ اس کی بدنیتی کابھی اندازہ لگایاجاسکتاہے چونکہ افغان حکومت کابیانیہ ہی پاک افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن قراردے کر متنازعہ بنائے رکھنا تھا۔ اس لئے وہ بارڈر مینجمنٹ میں دلچسپی کااظہار ہی نہیں کررہی تھی تاکہ اس کا بیانیہ مشکو ک نہ ہونے پائے۔ جس کے بعد اس پوری سرحد کو محفوظ رکھنے کی ذمہ تمام تر پاک فوج پر آن پڑی تھی۔ خیبرپختونخوا کے ساتھ کل 1229کلومیٹر افغان سرحد متصل ہے جس میں 830کلومیٹر سرحد پرہی باڑ لگائی جاسکتی ہے۔ باقی ماندہ سرحد اتنی اونچائی اور دشوار گذار علاقوں پر مشتمل ہے کہ عملاً باڑ نہ تو لگائی جاسکتی ہے نہ ہی اس کی ضرورت ہے اور اس وقت تک 830کلومیٹر میں سے پچاسی فیصد سرحد پرباڑ لگائی جاچکی ہے بارڈرمینجمنٹ کرتے وقت اس امر کاخیال رکھا گیاہے کہ عام لوگوں کی قانونی آمد ورفت اور کاروباری سرگرمیاں کسی بھی صورت متاثر نہ ہونے پائیں چنانچہ نہ صر ف طورخم میں جدید ترین ٹرمینل تعمیر کرنے کے علاوہ اب اس کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے کااعلان بھی ہوچکا ہے بلکہ انگور اڈہ اور غلام خان کیساتھ ساتھ خرلاچی کے مقامات پر بھی جدید طرز کے کراسنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں۔ اسکے علاوہ بعض دیگر مخصوص مقامات پر بھی چھوٹے کراسنگ پوائنٹس بنائے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سرحد کے آرپار رہنے والے قبائل کی سہولت کیلئے بارڈ ر ایریا میں ہی مارکیٹیں،سکول اورہسپتال بھی بنانے کافیصلہ کیا گیاہے تاکہ تقسیم ہونے والے قبائل کے معمولات زندگی باڑ لگائے جانے سے متاثر نہ ہونے پائیں بارڈر مینجمنٹ کی اہمیت اور اس کیلئے پاکستان کی کوششوں اور پاک فوج کے عملی اقدامات سے کسی کو انکار ممکن نہیں کیونکہ خود افغان حکومت کے علم میں بھی ہے کہ عام شہریوں اورمسافروں کیساتھ ساتھ عسکریت پسند بھی پاکستان داخلے کیلئے اس راستے کو استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کی جتنی بڑی بڑی وارداتیں ہوئیں۔ دہشتگردوں نے یہی راستہ استعمال کیا۔ پاکستان اب تک دہشتگردی کی اس جنگ میں ستر ہزار قیمتی جانوں کی قربانی دے چکا ہے جن میں چھ ہزار فوجی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ معیشت کو 110 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرناپڑا لہٰذا پاکستان دہشتگردوں کو سفری سہولتیں فراہم کرنے کیلئے اپنی سرحد کو کھلا چھوڑنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ افغانستان تعاون نہیں کریگا تو بھی پاکستان کو اپنے حصے کا کام ضرور کرنا چاہئے کوئی راضی ہو یا ناراض سرحد کو دہشتگردوں اور سمگلروں کیلئے کھلا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پاکستان کی موثر بارڈر مینجمنٹ خود ہمسایہ ممالک کے بھی حق میں ہے امید رکھی جانی چاہئے کہ افغانستان کی طالبان حکومت اس معاملہ میں سابق افغان حکمرانوں کی رو ش اپنانے سے گریز کریگی۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket