Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Tuesday, July 1, 2025

شناخت کا تصادم اور پاک افغان تعلقات

شناخت کا تصادم اور پاک افغان تعلقات
عقیل یوسفزئی

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بوجوہ کھبی کچھ زیادہ مثالی اور قابل تقلید نہیں رہے حالانکہ دونوں ممالک مختلف نوعیت کے مشترکہ مذہبی، لسانی، ثقافتی اور تجارتی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں.
1947 کو جب پاکستان آزاد ہوا تو جہاں ایک طرف افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کے ایشو کی بنیاد پر اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی وہاں عین آزادی کی تیاری یا انتقال اقتدار کے دوران بعض قوم پرست حلقوں نے پختونستان کا نعرہ بلند کرتے ہوئے تلخیوں میں مزید اضافے کا راستہ ہموار کردیا اور یہ تلخیاں اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں.
ماہ جون کے اوائل میں فرانس کے ایک شہر میں ایک افغان شہری کے ہاتھوں پاکستان کے ایک سابق عسکری شخصیت کی ویڈیو بنانے اور بعد میں اس پر انتہائی نازیبا اوورلیپنگ کو بعض حلقوں نےپاکستان سے نفرت کی بنیاد پر ایک بہت بڑا “کارنامہ” قرار دیا حالانکہ بلااجازت کسی کی ویڈیو بنانا اور اس پر غیراخلاقی الفاظ کے استعمال جیسی حرکت کو پشتون روایات تو ایک طرف کسی بھی معاشرے میں مناسب اور درست قرار نہیں دیا جاسکتا. اپر سے بیرون ملک بھیٹے مخصوص ذہنیت کے کی بورڈ واریررز نے مختلف خودساختہ دلائل کے ذریعے اس حرکت کا جس طریقے سے دفاع کیا وہ بھی بہت عجیب طرزِ عمل تھا.
اس بات سے قطع نظر کہ افغانستان ہر دور میں نہ صرف پراکسیز کا مرکز رہا اور یہاں کھبی سیاسی استحکام نہیں رہا زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ مختلف ادوار میں جہاں پاکستان اس کے لاکھوں شہریوں کا مسکن رہا اور ہزاروں یہاں کاروبار کرتے رہے بلکہ ایک تلخ حقیقت یہ بھی رہی کہ جب ناین الیون کے بعد افغانستان میں ایک جمہوری عمل اور سیاسی، معاشی استحکام، ترقی کا عمل شروع ہوا تب بھی پاکستان میں قیام پذیر تقریباً 30 لاکھ افغان شہریوں میں سے 20 برسوں کے طویل عرصے میں محض 4.3 فی صد لوگ اپنے ملک واپس چلے گئے حالانکہ واپس جانے والوں کے لئے خصوصی پیکجز کے اعلانات بھی کرائے گئے تھے.
اس بات سے قطع نظر کہ ماضی میں پاکستان کی افغان پالیسی کیسی رہی اور خود پاکستان کے اندر مختلف ادوار میں پاکستان کی پالیسیوں پر کتنی تنقید ہوتی رہی سچ بات تو یہ ہے کہ افغانستان کے حکمرانوں اور بعض قوم پرست حلقوں نے کھبی پاکستان کو اپنا دوست نہیں سمجھا جس کا نتیجہ یہ نکلتا رہا کہ پاکستان اپنے اس پڑوسی ملک کے بارے میں غیر معمولی حساسیت کا شکار رہا.
حال ہی میں ناروے میں مقیم نامور پشتون سکالر، ریسرچر اور تجزیہ کار ڈاکٹر فرحت تاج نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر “شناخت کا تصادم یا ٹکراؤ” کے عنوان سے اپنی نوعیت کا ایک جامع تحقیقاتی مقالہ یا ریسرچ پیپر مکمل کیا ہے جس میں تاریخی حوالوں کے علاوہ معتبر حوالہ جات اور ڈیٹا کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کیسے ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے آئے ہیں اور پاکستان میں موجود کروڑوں پشتونوں کا موقف اور رویہ کیا رہا ہے.
ڈاکٹر فرحت تاج کے تفصیلی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جتنے بھی مسائل ہیں ان کی بنیاد شناخت کی ٹکراؤ کی تھیوری سے جڑی ہوئی ہے. ان کے مطابق پاکستان کی شناخت ایک اسلامی ریاست کی ہے جبکہ افغانستان کی شناخت نسلی اور لسانی بنیادوں پر قائم ہے جس میں پاکستان میں موجود کروڑوں پشتون باشندوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے. اس بنیادی اہمیت میں افغانستان کے ایک بادشاہ امیر عبدالرحمان اور برطانوی ہند کے درمیان ہونے والے ڈیورنڈ لائن معاہدے کی “آفٹر شاکس” ایک اہم فیکٹر رہی ہیں جس کو لیکر پاکستان کے قوم پرست، شاعر اور انٹیلی جنشیا پر مشتمل حلقےافغانستان کے اس موقف پر مختلف ادوار میں اس ایشو کو اٹھاتے رہے ہیں کہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد نہیں مانتا اور پاکستان اسے ایک انٹر نیشنل بارڈر سمجھتا ہے.
ریسرچ کے مطابق مختلف ادوار میں افغانستان نے اس ایشو کو علاقائی فورمز پر اٹھانے کی کوشش کی مگر اس مسئلے کو کوئی موثر شنوائی نہیں ملی اگر چہ دوسروں کے علاوہ پاکستان کے حامی افغان طالبان بھی ڈیورنڈ لائن کو انٹرنیشنل بارڈر نہیں سمجھتے.
ریسرچ کے مطابق پاکستان مختلف مواقع پر اس لیے افغانستان کے اندر جھادی قوتوں کی حمایت کرتا رہا کہ کابل میں جو حکومت بیٹھی ہو پاکستان دوست ہو اور اس کوشش یا خواہش کو پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے کیونکہ بقول فرحت تاج ہندوستان کی تقسیم یا آزادی کے وقت پاکستان کے قیام کا مقدمہ ایک اسلامی ریاست کی تھیوری پر قائم تھا.
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مختلف ادوار میں جو کشیدگی اور بدامنی رہی اس کے پیچھے بھی ایسے ہی اسباب اور عوامل کارفرما تھے اور یہ سلسلہ اس ریجن میں پاکستان کے قیام سے پہلے بھی موجود تھا. یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے قوم پرستوں کا طرزِ عمل عملی طور پر جذبات پر منحصر رہا ہے اور یہ کہ افغانستان کےقوم پرستوں کے مقابلے میں مدارس سے فارغ التحصیل “سٹوڈنٹس” زیادہ سیاسی بصیرت رکھتے ہیں.مقالے میں انہوں نے پاکستان میں پشتونوں کی حیثیت کو بھی زیر بحث بنایا ہے جس کی پنچ لائن یہ ہے کہ پشتون نہ صرف پاکستان کا دوسرا بڑا لسانی گروپ ہے بلکہ ایک اہم اسٹیک ہولڈر بھی ہے.
ڈاکٹر فرحت تاج کی پروفایل، کام اور پورے خطے پر ان کی مہارت کو مدنظر رکھ کر ان کی اس تحقیقی مقالے اور اس میں موجود دلائل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ان کے اس کام سے نہ صرف بہت سے درپیش مسائل کی بنیادوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ جاری کشیدگی کو کم کرنے کے امکانات بھی ڈھونڈے جاسکتے ہیں. اگر چہ جاری علاقائی کشیدگی میں عالمی اور علاقائی پراکسیز کا بھی بنیادی کردار ہے اس کے باوجود بعض تاریخی تلخیوں کو کم کرنے اور نام نہاد سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت پر مبنی پروپیگنڈا کو کم کرنے کے امکانات پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں پڑوسی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے اور جنگ ذدہ مگر قدرتی وسائل سے مالا مال پشتون بیلٹ میں مستقل امن کو یقینی بنایا جائے.

شناخت کا تصادم اور پاک افغان تعلقات

Shopping Basket