تحریر؛ عماد خان
فاٹا میں قیام امن کی بحالی میں قبائلی مشران نے انتہائی اہم کردار ادا کردیا ہے قبائلی علاقوں میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر مقامی انتظامیہ کی مشاورت سے امن کمیٹیاں قائم کردی گئیں کمیٹیوں میں مختلف قبیلوں کے افراد شامل تھے جو اپنے قبیلے کے مسائل کو کمیٹی کے سامنے پیش کرتے اور پھر جرگہ اس مسئلے کاحل ڈھونڈتے تھے۔ قبائلی اضلاع میں مختلف قبیلوں اورخاندانوں کے مابین جائیداد کے تنازعے، گھریلوں رشتوں اور دیگر اُمور پر صدیوں پُرانی دشمنیاں چلی آرہی تھیں لڑائی،جھگڑے اور فائرنگ کاسلسلہ اکثر کئی دنوں تک جاری رہتاجس میں نہ صرف فریقین کے مابین قیمتی انسانی جانوں کاضیاع ہوجاتا بلکہ علاقہ میں امن وامان کی صورتحال دن بدن خراب رہتے۔ ان واقعات کی روک تھام کیلئے ضلعی انتظامیہ اورقبائلی مشران نے مشترکہ طور پر مختلف کمیٹیاں تشکیل دئیے اور انہیں یہ ذمہ داری سونپ دی گئی کہ وہ علاقے میں امن وامان کی صورتحال کوبہتر بنانے کیلئے لڑائی، جھگڑوں کاخاتمہ کرکے ایک پُرامن معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر کریں کیونکہ قبائلی اضلاع پہلے ہی سے جنگوں کی سبب پسماندہ رہ چکے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں جرگہ سسٹم کی بدولت امن قائم ہواہے جرگہ پختون روایات کاحصہ ہے جو صدیوں سے پختون قوم کاشناخت بنا ہے انصاف پرمبنی فیصلوں کیلئے جرگہ سسٹم انتہائی اہم کردارکر رہاہے۔ جرگہ اجتماع کو کہا جاتاہے پختون ثقافت میں جرگہ کواسمبلی کے طور پر ماناجاتاہے۔ جرگہ سسٹم میں باہمی مشاورت اوراتفاق رائے سے فیصلے کئے جاتے ہیں اور ہمیشہ سے اس نظام کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔
قبائلی علاقوں میں جولوگ مصالحت کاکردارنبھاتے ہیں وہ جرگہ تشکیل دیتے ہیں جن میں سیاسی،مذہبی،علاقے کے سفیدپوش اور معزز لوگوں کے علاوہ دونوں فریقین کے نمائندے شامل ہوتے ہیں جرگہ سسٹم کی اپنی افادیت ہے اسلئے جرگہ کویہ اعزازحاصل ہے کہ یہ انصاف کی فراہمی کا تیز ترین ذریعہ ہے پختون معاشرے میں پیدا ہونیوالے جن مسائل کے حل کیلئے سالوں سال لگ جاتے ہیں وہی مسائل جرگہ کے ذریعے چند دنوں یاپھرچندہفتوں میں حل ہوسکتے ہیں۔ جرگہ سسٹم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے تمام ارکان مقامی باشندے ہوتے ہیں اور علاقہ میں جب کوئی تنازعہ پیش آتاہے تو جرگہ ممبران اپنی علاقائی زبان، رسم و رواج، نظم وضبط کیساتھ ساتھ پیش آنیوالے واقعے سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اسلئے جرگہ کومسئلے کے حل میں زیادہ رکاوٹ نہیں ہوتی۔ عوام جرگہ سسٹم کو اسلئے اہمیت بھی دیتے ہیں کہ اس نظام میں فیصلے کرنے کیلئے نہ کوئی معاوضہ مقرر ہے اورنہ ہی وقت اورتاریخ دی جاتی ہے جرگہ ممبران تنازعہ کے حل کیلئے روزانہ کی بنیاد پر دونوں فریقین کیساتھ رابطے میں رہتے ہیں جب فریقین سے اختیار لیا جائے تو پھرجرگے کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ انصاف پر مبنی فیصلہ کریگی اور پھر وہی فیصلہ دونوں جانب قابل قبول بھی ہوگا۔ اس نظام میں عوام کو وقت، وسائل کی بچت اور سرکاری دفاتر کے چکرلگانے نہیں پڑتے اورنہ کوئی بڑے نقصان کااندیشہ ہوتاہے۔ فاٹامیں امن کی بحالی میں بھی جرگے کااہم کردار رہاہے اس نظام کے تحت نہ صرف قبائلی عوام کے مابین ممکنہ تنازعات کے خاتمے کیلئے بھرپور اقدامات اٹھائے بلکہ سیکورٹی فورسز اورمقامی انتظامیہ کی مشاوت سے علاقہ میں امن وامان کو نقصان پہنچانے والے عناصر کیخلاف سختی سے نمٹنے کیلئے فیصلے کئے گئے۔
فاٹاانضام سے پہلے حکومت نے وہاں کے قبائلی مشران کو پورے اختیارات دیئے تھے کہ وہ معاشرے میں قتل وغارت، لڑائی، جھگڑے، جائیداد اور گھریلوں تنازعات کی روک تھام کیلئے قبائلی رسم رواج کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے فوری حل کئے جائیں تاکہ ملک کے دیگرحصوں کی طرح یہاں پر بھی امن کی فضاء قائم ہوجائے اور آنیوالے نسلوں کی بہتر مستقبل کیلئے انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات جن میں تعلیم کیلئے سکولز،صحت سہولیات کیلئے ہسپتال، اعلی تعلیم کیلئے یونیورسٹی، ٹیکینکل سکلز کیلئے سنٹرز کا قیام اور روزگارکے مواقع فراہم کئے جاسکے۔
فاٹاانضام کے بعدصوبے کے دیگر شہروں کی طرح قبائلی علاقہ جات میں چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کیلئے تھانوں میں ڈی آرسی نظام کاقیام عمل میں لایاگیاہے جس کابنیادی مقصد عوام کوفوری اور سستے انصاف پر مبنی فیصلے یقینی بنائی جائے ڈی آرسی ممبران میں لوکل سطح کے علاقہ عمائدین عوام کی خدمت کیلئے بلامعاوضہ خدمات سرانجام دیتے ہیں جسکی بدولت عوام تھانوں اورعدالتوں کے چکرلگانے سے بچ جاتے ہیں عدالتوں میں بے تحاشہ کیسزکے باعث عوام کو اپنے فیصلے کا انتظار کرنا پڑتا ہے اسلئے حکومت نے عوام کی سہولت کیلئے مقامی سطح پرجرگہ اور ڈی آرسیز جیسے پلیٹ فارم کاقیام عمل میں لایا ہے تاکہ عوام کوانصاف کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئیں۔