یہ بات قابل تشویش ہے کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اور جنوبی اضلاع فورسز کی مسلسل کارروائیوں اور قربانیوں کے باوجود بدترین حملوں کی زد میں ہیں مگر اس سے بھی بڑھ کر افسوس ناک امر یہ ہے کہ صوبائی حکومت اس تمام منظر نامے میں ہمیں کہیں پر بھی فعال نظر نہیں آتی ۔ لگ یہ رہا ہے کہ سیکورٹی کے ایشوز صرف پاک فوج پر چھوڑ دیے گئے ہیں حالانکہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی اپنا کردار ادا کریں اور انتظامی مسائل کے حل پر نہ صرف یہ کہ ہنگامی بنیادوں پر توجہ دی جائے بلکہ سول اداروں کو فعال اور جوابدہ بھی بنایا جائے ۔ گزشتہ روز پشاور میں ایک سیمینار کے دوران گورنر سمیت اہم پارٹیوں کے قائدین اور ماہرین نے دونوں حکومتوں پر زور دیا کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کے اجراء کو یقینی بنایا جائے اور فاٹا انضمام کے وقت جو وعدے کئے گئے تھے وہ پورے کیے جائیں۔
ایک سیکورٹی رپورٹ کے مطابق ماہ اکتوبر میں خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں خصوصاً جنوبی اضلاع میں 46 دہشت گرد حملے کئے گئے ۔ ان حملوں کے نتیجے میں 46 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے جن میں 6 آفیسرز بھی شامل ہیں ۔ ان حملوں کے نتیجے میں 73 عام شہری شہید ہوئے جن میں 3 خواتین بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان 46 حملوں میں 26 خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں کیے گئے ہیں جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔
اگر چہ فورسز نے گزشتہ ماہ کے دوران خیبرپختونخوا کے جنوبی اور قبائلی اضلاع میں متعدد ٹارگٹڈ بیسڈ آپریشنز کیے ہیں اور درجنوں خوارج کو ہلاک اور زخمی کردیا ہے تاہم صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو لاتعلقی کی بجائے مدعی بن کر اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا ۔ محض مذمتی بیانات سے کام نہیں بنے گا ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا جائے اور اس میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بھی شریک ہو۔
عقیل یوسفزئی