پاک افغان کشیدگی، مذاکراتی عمل اور نئی حکومت کی افغان پالیسی

یہ امر کافی تشویش ناک ہے کہ 15 اگست کے بعد افغانستان میں افغان طالبان کے برسراقتدار آنے کے باوجود افغان سرزمین تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے حملہ آوروں کے ہاتھوں پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی اور پاکستان نے نئی افغان حکومت سے جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔  ابتدا ء میں افغان حکومت کا موقف رہا کہ معاملات بتدریج بہتر ہوں گے کیونکہ ان کے بقول حکومت کو اندرونی دباؤ اور مسائل کا سامنا تھا تاہم لگ یہ رہا ہے کہ یا تو افغان حکومت ٹی ٹی پی کے ہاتھوں مجبور ہے یا کوئی اور مصلحت آڑے آرہی ہے۔

اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ 15 اگست کے بعد پہلی بار دونوں ممالک کے درمیان کراس بارڈر ٹیررازم کے مسئلے پر موجودہ اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔  پاکستان نے افغان حکام کو وزارت خارجہ طلب کر کے اپنے خدشات سے آگاہ کیا تو دوسری pak afghan relations 2022طرف خوست اور کنڑ میں ہونے والی بعض مبینہ کارروائیوں پر افغان حکومت نے پاکستان سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا۔ افغان حکومت کے بعض اعلیٰ عہدیداران نے رد عمل میں بعض دھمکی نما بیانات بھی دئیے   حالانکہ یہ بات ان کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان ان کے لیے کیا کچھ کرتا آرہا ہے اور اس کے بدلے پاکستان کو کتنے دباؤ کا سامنا ہے۔

ہفتہ ہفتہ کے دوران شمالی وزیرستان میں ایک فوجی قافلے کو حملے کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں سات جوان شہید ہو گئے اس سے قبل دوسری کارروائیوں کے علاوہ ایک اور حملے میں ایک میجر کو شہید کیا گیا جبکہ اس سے پہلے ٹانک میں ایف سی کے قلعے پر دہشت گرد حملہ کیا گیا۔  ان تمام حملوں میں جو ایک چیز مشترک رہی وہ یہ تھی کہ حملہ آور افغانستان سے ہو کر آئے تھے اور ان کے ٹھکانے خوست میں ہیں۔  ان حملوں کو نظر انداز کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ پاکستان کی وہ مفاہمتی اور مذاکرات کی کوششیں بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائی ہیں جو کہ اس نے افغان حکومت کی خواہش پر بعض بنیادی خدشات کے باوجود ٹی ٹی پی کے ساتھ شروع کی تھیں۔

 اس ضمن میں فوج کے ترجمان نے گزشتہ روز ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں کیے جا رہے اور کارروائیاں جاری رہیں گی۔

ان کے مطابق رواں برس مختلف کاروائیوں کے دوران 160 سے زائد دہشت گردوں کو مارا جا چکا ہے جبکہ 100 سے زائد جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔

یہ بات غور طلب ہے کہ اگر بدگمانی کا یہ سلسلہ چل نکلا اور مزید حملے جاری رہے تو اندرونی چیلنجز اور تبدیلیوں سے دوچار پاکستان کا لائحہ عمل کیا ہوگا اور نئی مخلوط حکومت کی افغان پالیسی اس تناظر میں کیا ہوگی۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ خود اعتمادی کو کم کرکے دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے ان مسائل کا حل نکالا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket