سابق وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سے محرومی کے بعد سازش کا بیانیہ اپناکر ایک مہینے تک ملک کے مختلف شہروں میں ریکارڈ جلسے کیے اور ان کا مطالبہ ہر جگہ یہ رہا کہ ملک میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ دوسری طرف شھباز شریف کی زیرقیادت اتحادی حکومت انتخابی اصلاحات اور معیشت کی بحالی کے بغیر یہ مطالبہ ماننے سے انکار کرتی رہی۔ اس مسئلے نے گھمبیر شکل اختیار کی اور عمران خان کارکنوں اور عوام کو حکومت اور اہم ریاستی اداروں کے خلاف مزاحمت اور بغاوت پر کھلے عام اکساتے رہے۔ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بارے باغیانہ باتیں کرتے رہے اور الزام تراشی کرتے رہے کہ شھباز شریف کی حکومت کو لانے میں ملٹری قیادت نے امریکی سازش کے مطابق ان کا ساتھ دیا حالانکہ سازش محض ایک ایسا حربہ رہا جس کا کوئی عملی وجود بھی وہ ثابت نہیں کرسکے اور فوج بار بار یہ واضح کرتی رہی کہ اس معاملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس تمام صورتحال میں عمران خان نے کوشش کی کہ قوم کو تقسیم کیا جائے اور ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالا جائے۔ جلسوں کا فوکس انہوں نے دو صوبوں پختون خوا اور پنجاب پر رکھا اور اس مہم میں وہ پختون خوا کی اپنی حکومت اور اس کے وسائل بھی کھلے عام استعمال کرتے رہے۔ صوبائی حکومت کی تمام تر توجہ بھی اپنے لیڈر کو خوش رکھنے پر مرکوز رہی اور یہ حکومت وہی کردار ادا کرتی دکھائی دی جو کہ پچھلے دھرنا کے دوران پرویز خٹک کی حکومت ادا کرتی رہی تھی۔ عمران خان نے متعدد بار صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر کو استعمال کیا اور حکومت اس معاملے پر مضحکہ خیز قسم کے دلائل دیتی رہی۔ سابق وزیراعظم نے سی ایم ہاوس پشاور کو اپنا بیس کیمپ بنایا اور حالت یہ رہی کہ جب انہوں نے 19 میء کو ملتان میں اپنا آخری جلسہ کیا تو وہ لاہور یا بنی گالہ کی اپنی رہائش گاہوں کی بجائے ڈایریکٹ پشاور پہنچ گئے اور دو دن بعد سی ایم ھاوس ہی میں کور کمیٹی کا اجلاس بلاکر انہوں نے اگلے دن اعلان کیا کہ وہ احتجاجی تحریک کے اگلے مرحلے میں 25 میء کو اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور اس وقت تک وہاں بیٹھے رہیں گے جب تک حکومت فوری الیکشن کا اعلان نہیں کرتی۔ اس اعلان کے بعد حکومت نے ایسے کسی بھی مطالبہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس کو بلیک میلنگ اور ملک کو بحران سے دوچار کرنے کی کوشش کا نام دیا۔ کہا گیا کہ عمران خان کو کھلی چھوٹ نہیں دی جائے گی اور یہ کہ ملک کے موجودہ معاشی حالات قبل از وقت انتخابات کی اجازت نہیں دے سکتے۔ عمران خان نے ملک کی معیشت کی تباہی کی ذمہ داری بھی اتحادی حکومت پر ڈال دی حالانکہ تقریباً چار سال تک وہ خود برسراقتدار رہے اور یہ انہی کی ناکامی تھی کہ وہ ملک کی معیشت درست نہ کر سکے۔ جس صوبے یعنی پختون خوا میں 9 برسوں سے ان کی حکومت رہی اور اب بھی ہے اس صوبے کی حکومت نے بھی نہ صرف بیڈ گورننس اور کرپشن کی مثالیں قائم کی بلکہ اپریل کے آخری دنوں میں پتہ چلا کہ حکومت نے 600 ارب کے قرضے لیے ہیں اور یہ افسوسناک رپورٹ بھی سامنے آئی کہ اس دوران قبائلی علاقوں کے لئے مختص 44 ارب روپے بھی صوبائی حکومت نے ہڑپ کر دیے ہیں۔ اس کے باوجود وزیر اعلیٰ کے پی اور عمران خان بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات دوسروں پر لگا تے گیے۔ اسی دوران وزیر اعلیٰ محمود خان نہ صرف وزیراعظم شھباز شریف اور دیگر کے بارے میں عمران خان کی طرح نازیبا الفاظ استعمال کیے بلکہ ایک تقریر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ شھباز شریف کی شکل دیکھنے سے بہتر یہ ہے کہ وہ افغانستان چلے جائیں۔ اس رویے نے پورے ملک بالخصوص جنگ ذدہ پختون خوا میں بے چینی اور کشیدگی کو مذید ہوا دی اور مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عمران خان کو مذید کھلی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔ عمران خان لانگ مارچ کے مقاصد حاصل کر پائیں گے یا نہیں اس سے قطع نظر افسوسناک امر یہ ہے کہ انہوں نے سیاست میں تشدد، بدکلامی، بداحتیاطی اور کشیدگی کی جو بنیادیں رکھ دی ہیں اور اداروں کو سیاست میں غیر ضروری طور پر جس طریقے سے استعمال کرنے یا کھینچنے کی کوشش کی اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے اور معاشرے میں اس سے جو بگاڑ پیدا ہوئی ہے اگر وہ خدانخواستہ کسی تصادم یا سانحے میں تبدیل ہوگئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری عمران خان اور ان کی پارٹی پر عائد ہوگی۔
