نئےضم شدہ اضلاع اور ہماری قبائلی خواتین

تحریر: ام حریم

خیبرپختونخواہ میں بسنے والے لوگوں بالخصوص قبائل کو ٹی ٹی پی نے خود ساختہ قدامت پسند رویوں کے ذریعے کافی متاثر کیا اور خطے کی ایک بڑی آبادی یعنی خواتین کو خواہ مخواہ قبائلی روایات کے نام پر زندگی کے مختلف شعبہ جات میں آگے بڑھنے سے روکا لیکن ان ساری مشکلات کے باوجود ان قدامت پسند رویوں کا دلیری سے سامنا کرتے ہوائے بھی خواتین نے خود کو ترقی کے سفر پر گامزن کیا ہے اور خود کو سیاسی اور معاشی بااختیار بنانے کی طرف بڑی پیش رفت کی ہے۔
اس خطے کی سول سوسائٹی کی زیر قیادت سماجی تحریکوں میں خواتین کی سرگرمی نے جولائی 2018 میں پاکستانی آئین میں 25ویں ترمیم کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔ جس سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا۔ اس ترمیم نے سابق فاٹا کے رہائشیوں کو مکمل آئینی حقوق اور عدالتی تحفظات فراہم کیے اور صوبائی طور پر زیر انتظام قبائلی علاقوں (FATA) کی علیحدہ آئینی حیثیت ختم کردی۔
2018 تک، فاٹا پر 1901 کے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے تحت حکومت تھی۔ جس نے اس خطے کےباشندوں کو آئینی، قانونی اور سیاسی حقوق سے محروم رکھا۔
اس کا براہ راست اثر خواتین کے حقوق پر پڑا۔ جرگوں میں عورتوں کے خلاف سنگین قسم کی بدسلوکی کی منظوری دی جاتی تھی جن میں خواتین کو خاص طور پر نابالغ لڑکیوں کو جھگڑے ختم کرنے کے لیے دینا اور غگ کہ جس کے ذریعے ایک مرد زبردستی عورت پر اپنا حق جتاتا تھا۔
ان دیہی علاقوں میں جہاں خواتین کو سخت سیاسی اور معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس سے ان کی صلاحیت کو محدود کرنا مقصود ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر خواتین, انتخابات میں ووٹر یا امیدوار کے طور پہ الیکشن میں حصہ نہ لیں سکیں۔
ان حالات میں ایک پیش رفت یہ ہوٸی ,خواتین نے ایک مرد سرپرست کے بغیر گھروں سے نکلنے پر عسکریت پسندوں کی پابندیوں کی خلاف ورزی کی، ٹیچرز کے گھروں میں خفیہ طور پر کلاسز منعقد کرکے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں کو روکا۔ اور عسکریت پسندوں کی طرف سے عائد پابندیوں کے باوجود صحت اور دیگر بنیادی خدمات کی فراہمی کے لیے این جی اوز کے ساتھ کام کرنا جاری رکھا۔ ان پڑھی لکھی خواتین نے جنگجوؤں کی بھرتی کے مواقع کو بھی کم کر دیا جس سے لڑکوں کو متنازعہ علاقوں سے باہر لے جایا گیا۔
اس کے علاوہ اسلامی تعلیمات کے ذریعے بھی ان کی برین واشنگ کی بھرپور کوشش کی گٸی تاکہ اس خطے کی خواتین بھی دوسرے علاقوں کی طرح ترقی کی دوڑ میں شریک ہو سکیں۔
پشاور اور خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں میں شہری زندگی دیکھ کر, دوسری خواتین میں اپنے حقوق حاصل کرنے کے بارے میں شعور بیدار ہوا ہے۔
ان قباٸلی علاقوں میں خواتین نٸی اصلاحات کی مضبوط حامی بنیں، خطے میں آپس میں نیٹ ورکنگ کی، پارلیمنٹ کے ساتھ لابنگ کی۔
اس سرگرمی نے پاکستان کی 25 ویں آئینی ترمیم کو حاصل کرنے میں مدد کی، آخر کار قبائلی پٹی کی کمیونٹیز کو ملک کے باقی حصوں کی طرح کے حقوق کی ضمانت دے دی گٸی

سابق فاٹا اور پاٹا میں خواتین کو نا صرف انصاف تک رسائی حاصل ہے بلکہ وہ آئین اور قومی قوانین کے تحفظ سے مستفید ہوتی ہیں۔
جن میں ان کی جائیداد اور وراثت کے حق کی حفاظت کی ضمانت ہے۔
اس کے علاوہ جرگوں پر پابندی ہے۔ سوارہ اور غق جیسی بدسلوکی بھی تقریبا ختم ہوچکی ہے۔
مئی 2019 میں، فاٹا کے رہائشیوں نے پہلی بار خیبر پختونخواہ کی پارلیمنٹ کے اراکین کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ دیا۔جس میں اب قبائلی خواتین کا کوٹہ بھی ہے۔
بلاشبہ یہ تاریخی پیش رفت ہے۔
لیکن اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کہ خطے میں خواتین کو انصاف، سلامتی , سیاسی اور معاشی مساوات تک رسائی حاصل ہو، جس سے وہ شہری زندگی کی طرح اہم کردار ادا کرسکیں ۔
پہلی قبائلی پٹی میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مراعات دی گٸی جس میں اسکولوں میں خواتین کا کوٹہ، تحقیق اور تعلیمی گرانٹس اور مالی مدد شامل ہے۔
اس خطے میں خواتین سے امتیازی سلوک کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا لیکن بہت سے معاملات میں ہوٸی پیش رفت سے یہ علاقہ خواتین کو ترقی کی راہ پہ گامزن کر چکا ہے۔ اس خطے کی اشرافیہ , خواتین کے سیاسی، سماجی اور معاشی اختیارات میں اب بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
پاکستانی طالبان کا دوبارہ سر اٹھانا ان کی سلامتی اور بااختیار بنانے کے لیے ایک اضافی خطرہ بن سکتا ہے۔ پیچھے ہٹنا نہ صرف خواتین کو نقصان پہنچائے گا بلکہ اس خطے کو اس مکمل تعاون سے بھی محروم کر دے گا جو خواتین امن کی تعمیر، سلامتی اور شہری زندگی میں دے سکتی ہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket