تحریر: محمد رضا شاہ
پناہ گزینوں کا عالمی دن ہر سال 20 جون کو عالمی سطح پر جاری تنازعات، جنگ اور قدرتی آفات کے نتیجے میں اکھڑ جانے والے لاکھوں لوگوں کی ہمت اور لچک کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے، اس سال اس دن کا تھیم ہے “حفاظت کی تلاش ایک انسانی حق ہے۔ وہ جہاں سے بھی آئیں، بھاگنے پر مجبور لوگوں کا استقبال کیا جانا چاہیے”۔ جنوب مغربی ایشیا میں افغان مہاجرین دنیا کی سب سے طویل مہاجر آبادی بنے ہوئے ہیں، اس آبادی کا 95 فیصد پاکستان اور ایران میں ہے۔
فغان شہریوں کی پاکستان آمد کی تاریخ
پاکستان میں قریب تین ملین افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے نصف غیر تصدیق شدہ ہیں۔ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد پہلی مرتبہ سوویت جنگ کے دوران ہوئی تھی۔ پاکستان میں جنرل ضیاء کی حکومت کی جانب سے انہیں ملک میں خوش آمدید کہا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد پچاس لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم انیس سو نوے کی دہائی میں کچھ افغان مہاجرین پر امن علاقوں میں واپس چلے گئے تھے۔
ائن الیون کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تب بھی مزید مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔ تاہم کچھ عرصے بعد کابل اور بڑے شہروں میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے سے کئی مہاجرین واپس اپنے وطن لوٹ گئے تھے۔
گزشتہ برس جب طالبان کی جنگی کارروائیوں میں تیزی آئی اور امریکی فوجیوں کے انخلاء کی تاریخ قریب آنے لگی تو ایک مرتبہ پھر افغان مہاجرین نے بیرون ملک جانا شروع کیا۔ اور طالبان کے اقتدار پر قبضہ کر لینے کے بعد ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ لیکن اس مرتبہ بہت بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ نہیں کیا۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگا چکا ہے۔ اور چمن اور طورخم بارڈر پر بغیر دستاویزات افغان شہریوں کے پاکستان آنے کے امکانات کافی کم ہیں
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے مطابق اس وقت قریباً 10 کروڑافراد دنیا بھر میں بے گھر ہو چکے ہیں۔ یوکرین میں جنگ کے آغازکے بعد سے عالمی نقل مکانی کا بحران مزید ابتر ہوچکاہے ۔یوکرین کی جنگ واحد عنصر نہیں جس نے دنیا میں پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں حصہ لیا ہے۔
افغانستان کے اندرونی حالات کی وجہ سے پاکستان پچھلی چار دہائیوں سے زائد عرصے سے دنیا کے سب سے بڑے اور طویل ترین مہاجرین کے حالات میں سے ایک کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر ڈالی ہے، ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار کے مطابق پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغانوں کی میزبانی کررہا ہے جبکہ 4 لاکھ روہنگیا باشندوں نے بھی پاکستان میں پناہ حاصل کی ہے۔
یو این ایچ سی آر کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین حقائق نامہ کے مطابق، پاکستان بدستور دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، جس نے اپنے ممالک سے بھاگنے پر مجبور تقریباً 1.4 ملین افراد کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ رجسٹرڈ مہاجرین میں 52 فیصد سے زائد تعداد بچوں کی ہے جن میں 15 فیصد یعنی ایک لاکھ 97 ہزار 428 بچوں کی عمر 4 سال سے کم ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف 60 فیصد افغان مہاجرین ایسے ہیں جن کی عمریں 60 سال یا اس سے زائد ہیں، خواتین، بچوں اور بزرگ 76 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
پاکستان 1.3 ملین رجسٹرڈ افغانوں کی میزبانی کرتا ہے اور مزید 1.5 ملین غیر متعین حیثیت کے ساتھ۔
پاکستان کے لوگوں نے پناہ گزینوں کے لیے دل کھول کر ان کا خیرمقدم کیا جب وہ افغانستان میں تنازعات سے فرار ہو گئے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق سال 2002ء سے سال 2022ء تک پاکستان اور ایران سے 5,272,158 افغان مہاجرین کو افغانستان واپسی میں معاونت کی ہے ہر جانے والے فرد کو 250 ڈالر کی امدا فراہم کی ہے۔
پاکستان میں رہائش پذیر افغان
گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کی طرف سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد جہاں ایک بڑی تعداد میں افغانوں نے یورپ، امریکہ ،جرمنی اور مڈل ایسٹ کے ممالک کا رخ کیا وہاں ایک بڑی تعداد میں پاکستان بھی پہنچے۔ یہاں آنے والے زیادہ تر افغان شروع میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹہرے تھے، جبکہ ایک بڑی تعداد نے پاکستان کے راستے دیگر ممالک جانے کے لیے اسلام اباد میں ڈیرے ڈالے تھے۔زیادہ تر افغان باشندے پاک افغان سرحد طورخم ، چمن اور دیگر گزرگاہوں سے پاکستان پہنچے تھے۔ بڑی تعداد میں افغانوں کی آمد کے خدشات کی وجہ سے پاکستان نے کئی روز تک سرحدوں پر نگرانی سخت رکھی۔ تاہم اس دوران علاج معالجے اور مکمل دستاویزات رکھنے والے افغان باشندوں کو پاکستان آنے کی اجازت دی گئی تھی۔پاکستان میں اس وقت تین ملین سے زائد افغان باشندے رہائش پذیر ہیں جن میں سے 14 لاکھ یو این ایچ سی ار کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ آٹھ لاکھ افغان باشندوں کو پاکستان نے افغان سٹیزن کارڈ جاری کر رکھے ہیں۔ جبکہ 10 لاکھ افغان غیر قانونی طور پر پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر افغان خیبرپختونخوا، بلوچستان، اسلام آباد اور کراچی میں قیام پذیر ہیں
خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر افغان
یو این ایچ سی آر نے اعلان کیا ہے کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین میں سے 60 فیصد صوبہ خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں۔ خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کی اکثریت کاروبار سے وابستہ ہے۔ کئی بار تاجر تنظیموں نے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کا مطالبہ کیا تاہم تکنیکی بنیاد پر ان مہاجرین کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاسکا۔ پشاور میں زیادہ تر افغان ہوٹل، قیمتی پتھروں، قالین سازی، ٹرانسپورٹ، خشک میوہ جات، کپڑے، کراکری،کاسمیٹکس، الیکٹرانکس اور دیگر کاروباروں سے وابستہ ہیں۔
۔بیرون ملک افغانوں کی طرف سے رقوم کی ترسیل
یورپ، امریکہ اور مڈل ایسٹ میں مقیم افغان ہر ماہ اپنے رشتہ داروں کو اخراجات کی مد میں لاکھو ڈالر ارسال کرتے ہیں۔ زیادہ تر افغان بینکوں کے ذریعے یہ رقوم ارسال کرتے ہیں جو پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح بجلی، گیس اور یوٹیلیٹی بلز کی مد میں بھی افغان باشندے لاکھوں کا ٹیکس اور سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں
پاکستان میں پہلی مرتبہ افغان مہاجرین کے لیے سمارٹ کارڈز جاری
پاکستان میں عارضی قیام اور آزادانہ نقل و حرکت کے لیے افغان مہاجرین کو شناخت کا ثبوت دیا گیا ہے، جس کے ذریعے انہیں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، بینکنگ، جائیداد کا کرایہ اور دیگر متعلقہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ دس برسوں میں اتنے وسیع پیمانے پر مہاجرین کی تصدیق اور ان کی معلومات کو اپ ڈیٹ کرنے کا عمل پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔تقریباً 10 لاکھ نئے اسمارٹ شناختی کارڈز جاری کیے گئے ہیں جن کی میعاد 30 جون 2023 تک ہے، جس میں والدین کے کارڈز میں پانچ سال سے کم عمر کے بچے شامل ہیں۔ ۔اقوام متحدہ کی معاونت سے جاری اس مہم میں ابتدائی طور پر قریب بارہ لاکھ مہاجرین کے کوائف کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔ اس میں دو لاکھ بچوں کی معلومات بھی شامل ہیں۔ اس منصوبے کا آغاز گزشتہ سال اپریل سے ہوا تھا۔
سمارٹ کارڈز مہاجرین کو تحفظ فراہم کریں گے
ان کارڈز کی مدت تین جون 2023ء تک ہے۔ ان میں بائیومیٹرک ڈیٹا ہے جو کہ پاکستان میں کسی بھی فرد کی شناخت کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی سے مماثلت رکھتا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے ترجمان بابر بلوچ کا کہنا ہے، ”یہ سمارٹ شناختی کارڈز افغان مہاجرین کو تحفظ فراہم کریں گے اور انہیں صحت، تعلیمی اور بینکنگ کی سہولیات حاصل کرنا آسان ہو گا۔”
بابر بلوچ کے مطابق اس منصوبے کے ذریعے افغان مہاجرین پہلے سے بہتر انداز میں اپنے مسائل کو رپورٹ کر سکیں گے۔ بابر بلوچ کے مطابق،”مہاجرین کی اقتصادی اور سماجی معلومات سے پاکستان میں انہیں بہتر سہولیات فراہم کرنے میں مدد ملے گی اور وہ مہاجرین جو واپس افغانستان جانا چاہتے ہیں انہیں بھی مدد فراہم کی جائے گی۔”
پاکستان کے راستے بیرون ملک جانے والے افغان
افغان مہاجرین پاکستان میں
افغان مہاجرین کی زیادہ اکثریت یورپ میں نہیں آباد ہوئی۔ افغانستان کے ساتھ 2650 کلومیٹر لمبی مشترک زمینی سرحد رکھنے والے ملک پاکستان نے طویل مدت تک افغان مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد کو پناہ دی حالانکہ وہ مہاجرین کنوینشن 1951 یا مہاجرین سے متعلق عالمی قانون پروٹوکول 1967 میں سے کسی ایک کا بھی رکن نہیں۔افغان مہاجرین کے معاملے میں ایران نے بھی اہم کردار ادا کرتے ہوئے ایک بڑی تعداد کو اپنے ملک میں پناہ دی جن میں آٹھ لاکھ اندراج شدہ اور اس کے علاوہ کم از کم 20 لاکھ غیر اندراج شدہ افغان شہری شامل ہیں۔
افغان مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کی معمولی تعداد بھارت (15,689)، انڈونیشیا (7,692) اور ملائیشیا (2,478) میں ہے۔
38 لاکھ اندراج شدہ اہل شام مہاجرین کو پناہ دینے والا مہاجرین کا دنیا میں سب سے بڑے میزبان ملک ترکی میں اندراج شدہ افغان مہاجرین کی تعداد 980 ہے اور اس کے علاوہ ایک لاکھ 16 ہزار پناہ کے متلاشی ہیں۔
کیا افغان مہاجرین پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں؟
پاکستان میں پہلے ہی تین ملین افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے قریب نصف یہیں پیدا ہوئے ہیں لیکن انہیں مہاجر کا درجہ ہی دیا گیا ہے۔
گزشتہ سال حکومت نے چودہ لاکھ افغان مہاجرین کے ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کیا اور انہیں ریفوجی کارڈز دیے گئے، جس کے ذریعے انہیں بینکوں اور صحت کے شعبے کی سہولیات حاصل کرنا آسان ہو گیا۔
لیکن اب بھی پاکستان میں قریب پندرہ لاکھ افغان مہاجرین غیر رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں وہ ایک لاکھ شہری شامل نہیں ہیں جو 2021 کے آغاز سے پاکستان پہنچے ہیں۔
پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی کا کہنا ہے کہ افغان شہریوں کی اصل تعداد کئی گنا زیادہ ہوگی کیوں کہ بہت سے افغان شہری پاکستان کے ساتھ طویل سرحد کے کئی حصوں سے پاکستان پہنچتے ہیں اور یہاں آکر اپنے آپ کو رجسٹر نہیں کرواتے۔
پاکستان نے افغان مہاجرین کی نئی لہر کو ابھی مہاجرین کا درجہ نہیں دیا ہے بلکہ انہیں ٹرانزٹ ویزے دیے گئے ہیں۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کے پاس ان کی رجسٹریشن، خوراک اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی جامع پروگرام نہیں ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی وزارت خارجہ خاموش ہے۔
افغان شہریوں کیلئے نئی ویزا پالیسی کی منظوری
افغان شہریوں کو درپیش مسائل اور غیر قانونی امیگریشن کی خامیوں کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کے راستے بیرون ملک جانے والے افغان شہریوں کے لیے نئی ویزا پالیسی کی منظوری دی ہے۔نئی پالیسی کے مطابق، افغان شہریوں کو درخواست کے 24 گھنٹوں کے اندر پاکستان کا 30 دن کا ٹرانزٹ ویزا فراہم کیا جائے گا۔ پاکستان میں میزبان سفارت خانہ اور وزارت خارجہ افغان شہریوں کو 30 دن کا ٹرانزٹ ویزا دینے کے ذمہ دار ہوں گے نئی پالیسی افغانیوں کی مدد اور افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے حکومتی حل کا مظہر ہے۔