محمد رضا شاہ
پاکستان حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان جون 2022 میں مذاکرات کا حالیہ دور شروع ہوا۔جس کی سربراہی 53 رکنی گرینڈ قبائلی جرگہ کر رہی تھی۔تحریک طالبان سے مزکرات نے پاکستان میں اس بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت ہونی چاہیے یا نہیں۔ حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک کے لیے توسیع کے اعلان کا خیر مقدم کیا ۔تاہم حکومت کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے کہا کہ تحریک طالبان افغانستان اور کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا اور فیصلے وہیں ہونے چاہئیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے قومی سلامتی اجلاس
وزیر اعظم شہباز شریف نے بدھ 22 جون 2022 کو وزیر اعظم ہاؤس میں پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا ان کیمرہ اجلاس طلب کیا تھا۔یہ اجلاس بنیادی طور پر حکومت پاکستان اور پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کے درمیان حال ہی میں کابل میں ہونے والے مذاکرات کی پیش رفت پر بات کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔وزیراعظم ہاوس میں ان کیمرہ اجلاس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی کے بجائے وزیراعظم شہباز شریف نے خود کی۔ اجلاس میں پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان اور وفاقی وزرا شریک ہوئے، جبکہ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور کور کمانڈر پشاور سمیت دیگر حکام بھی شریک ہوئے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ
سوا تین گھنٹے جاری رہنے والے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت کی سہولت کاری سے کالعدم ٹی ٹی پی کیساتھ آئین کے دائرے میں بات چیت کی جارہی ہے، حکومتی قیادت میں سول اور فوجی نمائندوں پر مشتمل کمیٹی مذاکرات کررہی ہے تاہم حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری، مستقبل کے لئے فراہم کردہ رہنمائی اور اتفاق رائے سے کیاجائے گا
تحریک طالبان سے مذاکرات اور سیز فائر
جوناٹھارہ کو حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کا آخری دور کابل میں اختتام پذیر ہوا۔ پاکستان کی حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان افغان طالبان کی ثالثی میں مذاکرات کئی ماہ سے جاری ہیں۔ مذاکرات کے دوران فائر بندی پر دو مرتبہ اتفاق رائے ہوا۔ حالیہ دنوں میں بھی طالبان نے فائر بندی کا اعلان کر رکھا ہے۔ افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہوسکتا ہےکہ اس بار مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جائیں۔ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی میں مذاکرات کےلیے ہمارا کردار ثالث کا ہے، مذاکرات ناکام ہوئے تو کسی کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔
تحریک طالبان کے مطالبات
اطلاعات کے مطابق، ٹی ٹی پی نے پاکستان کے سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو کے پی کے میں ضم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹی پی پی پاکستانی حکام کے زیر حراست اپنے 30 اہم کمانڈروں کی رہائی کا بھی مطالبہ کرتی ہے۔ افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ اگرچہ وہ مذاکرات کی سہولت فراہم کر رہے ہیں لیکن ان کا ٹی ٹی پی پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے جو مطالبات سامنے آئے ہیں ان میں طالبان ذرائع کے مطابق پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا، اسلحے کے لیے لائسنس کا حصول، بغیر لائسنس کے اسلحے کی واپسی اور تحریک کو تحلیل کرنا شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق حکومت نے پاکستانی طالبان سے داعش کے ساتھ تعلقات نہ رکھنے اور جنگ بندی جاری رکھنے کے مطالبے بھی کیے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے عروج، زوال اور اب دوبارہ پیش قدمی
افغانستان پر امریکی حملے کے بعد افغان طالبان کی طرز پر پاکستان میں بھی تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد ڈالی گئی اور یہ تنظیم متعدد شدت پسند کارروائیوں میں ملوث رہی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2014-2018 تک، پاکستانی فوج کی جانب سے کئے گئے متعدد اپریشنز ٹی ٹی پی کے زوال کا باعث بنے لیکن جب تحریک کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی محسود جو 2018 میں ملا فضل اللہ کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ بنے تو اس وقت تنظیم میں دھڑا بندی کو ختم کیا ۔ سی ٹی سی کی تحقیق کے مطابق مفتی ولی محسود کی قیادت میں متعدد قبائل پر مشتمل دھڑوں جیسا کہ حکیم اللہ محسود گروپ اور شمالی وزیرستان کے علیم خان گروپ کی تنظیم میں شمولیت نے ٹی ٹی پی کی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بحالی کو ممکن بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ مفتی ولی محسود کی قیادت میں تنظیم کی کارروائی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی لائی گئی ہے۔
جنگ بندی سے پہلے تشدد کے واقعات
گذشتہ برس افغان طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کے متعدد حلقوں کی جانب سے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب افغانستان سے پاکستان میں حملوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگست 2022 کے بعد پاکستان میں نور ولی محسود کی قیادت میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹی ٹی پی نے 2021 میں پاکستان آرمی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر 282 حملے کرنے کا دعویٰ کیا۔ سرکاری سطح پر بھی طالبان کے خلاف آپریشنز کیے گئے جن میں شدت پسندوں کی ہلاکت اور گرفتاریوں کا کہا گیا ہے۔ طالبان کی جانب سے شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں سب سے زیادہ حملے کیے گئے ہیں۔