آرمی چیف کا دورہ سوات اور تیز ترین تعمیر نو کا عزم

عقیل یوسفزئی
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کور کمانڈر پشاور اور دوسرے اعلیٰ عسکری حکام کے ہمراہ گزشتہ روز سوات کا دورہ کیا جہاں ان کو سیلاب سے پیدا شدہ صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور انہیں ان اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا جو کہ سول و ملٹری ادارے متاثرین کی بحالی کے لئے سر انجام دے رہے ہیں. آرمی چیف نے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا تاہم انہوں نے تمام اداروں کو تاکید کی کہ سیلاب کے متاثرین کی مدد کے علاوہ بحالی کی کوششوں کو تیز کیا جائے تاکہ آمدورفت کے زرائع کو جلد از جلد بحال کیا جاسکے اور عوام کے نقصان کا بروقت ازالہ بھی ممکن بنایا جاسکے.
آرمی چیف نے دورہ کے دوران مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سڑکوں اور پلوں کو بہت نقصان پہنچا ہے جن کی بحالی پر ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے گا تاکہ آمدورفت کو یقینی بنایا جائے. ان کے مطابق نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے فوج، صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کا مشترکہ نظام تشکیل دیا جائے گا. انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سوات میں زیادہ نقصان ان عمارتوں کی وجہ سے سامنے آیا جو کہ تجاوزات پر بنائی گئی تھیں. انہوں نے اپنی بات چیت میں کہا کہ 2010 کے سیلاب نے جن عمارتوں کو نقصان پہنچایا تھا بعد میں ان مقامات پر پھر سے تعمیراتی کام کی اجازت دی گئی. جن افسران یا اداروں نے ایسا کرنے کی اجازت دی ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے. ان کی اس بات اور نشاندہی کو سنجیدگی کے ساتھ لینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسی رویہ کی وجہ سے نہ صرف ایک بار پھر سوات سمیت متعدد دوسرے علاقوں کو بدترین مالی، جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اربوں کا سرمایہ بھی ڈوب گیا اور انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا. جن اداروں یا افراد نے اس ضمن میں بوجوہ غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے ان کے خلاف صوبائی حکومت کو بلا تاخیر تحقیقات کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ آیندہ کے لیے اس قسم کی تباہی اور نقصان سے بچا جاسکے. اس سے قبل وزیراعلیٰ کےپی بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ تجاوزات اور ممنوعہ جگہوں پر سوات میں عمارتیں بنائی گئی جس سے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی. تاہم انہوں نے یہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کی کہ یہ سب کچھ ان کی حکومت سے قبل ہوا تھا. اب جبکہ آرمی چیف نے بھی ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی بات کی ہے اس لیے وزیر اعلیٰ کو وقت ضائع کئے بغیر تحقیقات کا حکم دینا چاہیئے تاکہ ان مافیاز پر ہاتھ ڈالا جاسکے جو کہ اس نوعیت کے جرم میں ملوث ہیں. ایک تجویز یہ بھی دی جاسکتی ہےکہ اسسمننٹ کے لیے جو مشترکہ ٹیم بنے گی یہ تحقیقات اس کے دائرہ کار اور مینڈیٹ میں شامل کی جائیں کیونکہ عسکری حکام کسی ممکنہ دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتے اور اب تو اس کام اور ایشو میں آرمی چیف کی خواہش بھی شامل ہوگئی ہے.
اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے کہ بعض سڑکیں اور بائے پاسز ان مقامات پر کیوں تعمیر کی گئیں جو کہ بلکل دریائے سوات اور دیگر کے کناروں پر واقع تھے اور سیلاب کے باعث دریا برد ہوئے جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچا اور عوام کو تکلیف کا سامنا پڑا. اگر ان مسائل کا اعلیٰ سطحی نوٹس نہیں لیا گیا تو اس قسم کی صورتحال بار بار دیکھنے کو ملتی رہے گی.
یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ سیلاب سے نمٹنے میں متعلقہ ملٹری اور سول اداروں سمیت سیاسی جماعتوں، فلاحی اداروں اور سب سے بڑھ کر عام لوگوں نے قومی یکجہتی کا بہترین مظاہرہ کرکے نہ صرف متاثرین کی بروقت مدد کی بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود جب بھی کوئی مصیبت اور آفت آتی ہے ہم متحد ہو کر مقابلہ کرنے نکل آتے ہیں تاہم اس بات کا جائزہ لینا از حد ضروری ہے کہ کوتاہیوں کا نوٹس لیکر اس امر کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے کہ سیلاب کے اسباب اور مستقبل میں اس سے بچنے کے امکانات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket