عقیل یوسفزئی
یہ بات کافی حوصلہ افزا ہے کہ متعلقہ اداروں، فلاحی تنظیموں اور عام شہریوں نے سیلاب زدگان کو محفوظ مقامات تک پہنچانے اور ان کو ہنگامی بنیادوں پر بنیادی ضروریات کے مشکل کام کو دن رات محنت کرکے ممکن بنایا تاہم اب دوسرا مرحلہ بلکہ چیلنج انفراسٹرکچر کی بحالی اور عوامی نقصان کی تلافی کا ہے جس کی جانب آرمی چیف نے بھی متعدد بار اشارہ کیا ہے.
پی ڈی ایم اے کی 31 اگست کی رپورٹ کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا میں انفراسٹرکچر کو تقریباً 20 ارب کا نقصان پہنچا ہے جن میں سڑکیں، پل، سکولز، ھسپتال سرفہرت ہیں. اس تناسب سے اگر عوامی املاک، کاروباری مراکز، مویشیوں اور فصلوں کے نقصان کا اندازہ لگایا جائے تو اتنا نقصان ادھر بھی ہوا ہے.
وزیراعظم شھباز شریف نے پختونخوا کے لیے 10 ارب کے پیکیج کا اعلان کیا ہے جبکہ وزیراعلیٰ اب تک مختلف اضلاع لے لیے تقریباً 90 کروڑ کی امداد کے اعلانات کرچکے ہیں. مذید فنڈز کی فراہمی کے لئے دونوں حکومتوں کو ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا. المیہ یہ ہے کہ اس بدترین بحران کے دوران بھی دونوں حکومتوں کے درمیان تلخی اور الزامات میں کمی واقع نہیں ہورہی اور دونوں چیف ایگزیکٹوز کے درمیان تاحال کوئی رابطہ بھی نہیں ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ عوام کی نظریں اب بھی پاک فوج پر ہیں جس نے اس مصیبت میں عوام کو نہ صرف تحفظ کا احساس دیا بلکہ اس کی اعلیٰ قیادت نے ہر جگہ خود جا کر ریسکیو اور ریلیف کے کاموں کو یقینی بنایا.
سیلاب سے خیبر پختونخوا کے 10 اضلاع بری طرح متاثر ہوگئے ہیں. حکومت نے شدید متاثرین کے لئے صوبے میں 160 ریلیف کیمپس قائم کئے ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 2 لاکھ متاثرین کو پناہ دی گئی ہے.
صوبے میں اب تک سیلاب سے 108 بچوں اور 40 خواتین سمیت 275 شہری جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ 3000 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے ہیں. دوسری طرف مختلف علاقوں میں وبائی امراض نے بھی متاثرین کو ایک نئے خطرے سے دوچار کر دیا ہے.
اس صورتحال میں ریاستی اداروں کو متعدد بڑے چیلنجز کا سامنا ہے تاہم اگر یہی جذبہ رہا اور عوام بھی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے صبر اور تعاون کا راستہ اختیار کریں تو بہت جلد حالات قابو میں آجائیں گے. اس بات کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے کہ امداد کو حقداروں تک پہنچا دیا جائے اور ان عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے جو کہ ایسے مواقع کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں.
