پائیدار امن کے لئے شدت پسندوں کو راہ راست پر لانا ناگزیر

محمد رضا شاہ
ٹی ٹی پی کی تارِیخ

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان اور افغانستان میں قائم ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو 2007 میں تشکیل دی گئی تھی۔ اپنے قیام کے بعد سے، ٹی ٹی پی پاکستان کا سب سے بڑا اور زیادہ فعال مسلح اپوزیشن گروپ رہا ہے۔ یہ زیادہ تر پشتونوں پر مشتمل ایک نسلی گروہ ہے جو زیادہ تر فاٹا اور پاکستان کے خیبر پختونخواہ (کے پی) کے علاقے میں موجود رہا۔ اس طرح فاٹا ٹی ٹی پی کو بھرتی اور آپریشنل لیوریج دیتا رہا۔ ٹی ٹی پی میں شامل ہونے والے پشتون بنیادی طور پر دو عوامل سے متاثر ہو کر ٹی ٹی پی میں شامل ہوتے رہے، ایک فاٹا کا غیر محفوظ سرحدی علاقہ اور دوسرا افغانستان سے مقامی اور مہاجر پشتونوں کا ارتکاز، ان دو عوامل کی وجہ سے ٹی ٹی پی کو ان کے استحصال کا موقع ملا۔

ٹی ٹی پی کے خلاف طاقت کے استعمال کے اثرات

ایک محتاط اندازے کے مطابق سال2001 کے بعد پاک فوج نے فاٹا میں تقریباً تین درجن سے زائد آپریشن کئے ان میں سے زیادہ تر شمالی اورجنوبی وزیرستان میں کئے گئے کیونکہ نائن الیون کے بعد ہزاروں جنگجوپناہ کی تلاش میں ان دو اضلاع میں گھس آئے تھے ۔اس نیم خودمختار علاقے میں ضرب عضب اور راہ نجات جیسے فوجی آپریشنز اس خطے میں پاکستان فوج کی طرف سے آخری جارحانہ کاروائیاں تھی۔ اگرچہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز ٹی ٹی پی کو ختم کرنے میں کامیاب رہے۔ لیکن طاقت کے استعمال کا ایک بڑا نتیجہ فاٹا کی مقامی آبادی میں پاکستانی حکومت اور سیکورٹی فورسز کے خلاف نسلی سیاسی شکایات کو جنم دینے کی صورت میں سامنے آیا۔

انسداد دہشت گردی کیلئے حکمت عملی میں تبدیلی

حکومتی رٹ بحال کرنے کے بعد حکومت نے ۲۰۱۵ میں انتظامی اور اقتصادی اصلاحات متعارف کرانے کے لیے فاٹا کی ازاد حیثیت کو ختم کر کے فاٹا مرجر کاا اعلان کیا۔ تاہم اصلاحات کا یہ عمل بہت سست رفتار رہا سرحد پر باڑ لگانے سمیت مزید اقدامات نے سرحد پار معاشی سرگرمیوں کو روکا اور مقامی لوگوں کے روزمرہ کے سفر میں رکاوٹ پیدا کر دی، جس سے مقامی آبادی کی زندگی متاثر ہوئی۔ اگرچہ ان اقدامات کا مقصد فاٹا کو باقی پاکستان کے ساتھ مرکزی دھارے میں شامل کرنا تھا تاہم ان کے نتیجے میں پاکستانی ریاست کے خلاف مقامی لوگوں کو شکایات پیدا ہوئیں۔ ماضی میں ٹی ٹی پی نے اسی طرح کی مقامی مسائل کو پاکستانی ریاست کے خلاف عسکری بھرتیوں اور خودکش حملوں کے لیے مالی امداد کے حصول اور دہشت گردی کے لیے استعمال کیا ہے۔

نئی سیکورٹی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت

سنہ ۲۰۱۴کا میں تشکیل دیا گیا “نیشنل ایکشن پلان” دہشت گردی اور پُرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے جارحانہ کارروائیوں اور ادارہ جاتی ہم آہنگی پر مرکوز تھا۔ تاہم ملک کی نئی قومی سلامتی پالیسی کے مطابق جو کہ ۲۰۲۶ تک کارآمد ہے — تمام دہشتگرد گروہوں کے خلاف انٹیلیجنس آپریشن، دہشتگردی کی مالی سرپرستی کی روک تھام کے علاوہ ان علاقوں میں غربت، عدم استحکام اور ساختی خامیوں کو ختم کرنے کے لیے کام کیا جائے گا جہاں دہشتگرد اپنے گروہوں کے لیے بھرتیاں کرتے ہیں۔ پالیسی کے مطابق علیحدگی پسند عناصر سے نمٹنے کے لیے چار نکات پر مشتمل پالیسی اختیار کی جائے گی۔ مذاکرات کے حامی گروپوں کو ان گروہوں سے الگ کیا جائے جن سے بات چیت نہیں ہو سکتی، ان گروہوں میں بھرتیوں یا شمولیت کے سلسلے کو ختم کیا جائے گا، مالی ذرائع کو ختم کیا جائے گا اور چوتھا یہ کہ ایسی ٹارگٹڈ سماجی و معاشی پالیسیاں تشکیل دی جائیں گی جو پسماندہ علاقوں کی عام عوام کی شکایات کا ازالہ کر سکیں جن کا استحصال شرپسند عناصر کرتے ہیں۔

ٹی ٹی پی سے مشروط مزاکرات ؛ آگے بڑھنے کا راستہ

پاکستان کچھ عرصے سے ٹی ٹی پی کے ساتھ ہتھیار ڈالنے اور ریاست کے خلاف تشدد روکنے کے بارے میں بات چیت کر رہا ہے۔ امن عمل کے حوالے سے اپنی سنجیدگی کا اظہار کرنے کے لیے ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان کے امریکی انخلاء کے بعد پہلی بار حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ ایک بارپھر دہشت گردی میں ملوث چند گروہوں سے مذاکرات کیے جارہے ہیں۔ حکومتی قیادت میں سول اور فوجی نمائندوں پر مشتمل کمیٹی آئین پاکستان کے دائرے میں بات چیت کر رہی ہے۔ حتمی فیصلہ آئین کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری، مستقبل کے لئے فراہم کردہ رہنمائی اور اتفاق رائے سے کیا جائےگا۔

دہشتگردوں سے بات چیت کیوں ؟

اگرچہ فوجی کارروائیاں دہشت گردوں کا کمر توڑنے میں نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہیں لیکن یہ پھر بھی ایک پائیدارحل نہیں ۔ کسی بھی تنازعہ میں فوجی طاقت کا استعمال صرف ایک آلہ ہوتی ہے۔ مکمل فتح حاصل کرنے کے لئے تمام آلات کا استعمال ضروری ہے۔ پاکستان نے برسوں تک اپنی فوجی طاقت کا استعمال کیا لیکن ایک نہ ختم ہونے والے تنازعے کی وجہ سے جسمانی و نفسیاتی دونوں سطحوں پر تھکاوٹ بڑھ جاتی ہے ۔2001ء کے بعد سے 19000 سے زائد دہشت گرد حملوں میں ہزاروں فوجی، نیم فوجی دستے اور پولیس افسران شہید ہو چکے ہیں۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے امن کو موقع دیا جائے۔ ماضی میں بھی اس قسم کے مذاکرات کامیاب رہے ہیں۔ فروری 2016 اور دسمبر 2017 کے درمیان بلوچستان کے مختلف حصّوں میں درجنوں کلیدی کمانڈروں سمیت 2,000 مسلح عسکریت پسندوں نے تشدد ترک کر دیا اور ریاستی حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ یہ ان نوجوانوں کو مرکزی دھارے میں لانے کا ایک بہت بڑا قدم تھا جو ریاست اور شہریوں کے خلاف تشدد میں الجھ گئے تھے۔

مذاکرات کے لیے ماحول سازگار

اب کوشش کرنے کا ایک مناسب موقع ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد افغان طالبان نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ وہ افغانستان کی زمین کو ٹی ٹی پی کے حملوں کے لئے استعمال نہیں ہونے دینگے۔ گزشتہ 15 سالوں سے اس طرح کی یقین دہانی کبھی افغان حکومت کی طرف سے نہیں آئی اور نہ ہی ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی جسے پورے سرحدی خطے میں بے پناہ حمایت اور پناہ گاہیں حاصل تھیں۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد شاید ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو وہ حمایت حاصل نہ ہو جو پہلے حاصل تھی۔ افغان طالبان کی جانب سے ٹھوس یقین دہانیوں کی بنیاد پر صورتحال پاکستان کے حق میں دکھائی دیتی ہے جو امن مذاکرات کے لیے اچھا اشارہ ہے۔ بصورت دیگر ٹی ٹی پی کے لوگ اسی طرح افغانستان میں رہیں گے، تو انہیں کوئی بھی دشمن ایجنسی پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں۔

اگلا لائحہ عمل:

برسوں کی معاشی اتھل پتھل، عدم استحکام اور بحران کے بعد پاکستان کو کچھ امن سے سانس لینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ منڈلاتے ہوئے معاشی بحران اور ابھرتے ہوئے چیلنجوں پر توجہ مرکوز کرسکے۔ امن مذاکرات اور بات چیت پائیدار امن اور استحکام کے عمل کے اہم حصے ہیں۔ کسی بھی پیش رفت کے حصول کے لئے سیاسی اور فوجی قیادت کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں عسکریت پسندی کو مکمل طور پر شکست دی جا سکے۔ کوئی بھی ریاست متوازی نظام یا مستقل عسکریت پسند تنظیم موجودگی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ایک جامع حکمت عملی جو مسئلے کے حل کے لئے سیاسی اور فوجی ذرائع کو یکجا کرتی ہے، وقت کی ضرورت ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket