عمران خان فرسٹریشن کا شکار یا کوئی اور ایجنڈا؟
عقیل یوسفزئی
تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے وزیر آباد واقعہ کے چند گھنٹوں بعد اپنے نجی ھسپتال سے اپنے اپر ہونے والے حملے پر لمبی تقریر کرکے سازشی نظریات پر مبنی وہی باتیں دہرائی ہیں جو کہ وہ حکومت سے محرومی کے بعد کرتے چلے آ رہے ہیں. انہوں نے کسی ثبوت کے بغیر مفروضوں کی بنیاد پر وزیراعظم، وزیر داخلہ اور ایک اعلیٰ فوجی افسر پر سازش کے الزامات لگاتے ہوئے ان تینوں کے استعفوں کا مطالبہ کیا تاہم انہوں نے اپنی پنجاب حکومت کی کارکردگی اور ناکامی کا کوئی ذکر نہیں کیا جو کہ نہ صرف ان کو درکار سیکیورٹی دینے میں ناکام رہی بلکہ واقعہ کی ایف آئی آر درج کرنے سے بھی گریزاں رہی.
ان کے ان الزامات کو جہاں وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتوں کے سربراہان نے بے بنیاد قرار دیا وہاں آئی ایس پی آر نے بھی اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ فوجی افسران اور اہلکاروں پر اس نوعیت کے الزامات کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ان کا دفاع کیا جائے گا. جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے فوج میں ایک موثر احتسابی نظام موجود ہے اور حکومت فوجی افسران پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کرے کیونکہ اس قسم کے الزامات کسی صورت قابل برداشت نہیں ہیں.
اس سے قبل جب عمران خان زخمی ہوئے تو پشاور سمیت متعدد شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے جن کے شرکاء کی تعداد بہت محدود رہی تاہم عمران خان نے جمعہ والی “تقریر” میں ہدایت کی کہ ان کے دوبارہ نکلنے تک وہ احتجاج جاری رکھیں.
پشاور اور لاہور کے احتجاجی مظاہروں میں کارکنوں اور ممبران اسمبلی نے بعض ایسی حرکتیں کیں جن کو بھارت سمیت دنیا بھر کے میڈیا نے پاکستان کے خلاف بری طرح استعمال کیا. اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گویا پاکستان کے عوام اپنی فوج کے خلاف نکل آئے ہیں.
پشاور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ کے سامنے مٹھی بھر کارکنوں نے نعرہ بازی کی اور چند اپنی ہی پولیس فورس کی ایک بکتربند گاڑی پر چڑھ دوڑے جس کو احمقانہ طریقے سے فوجی ٹینک کا نام دیا گیا اور اس کی منظم پبلسٹی کی گئی.
یہ بہت عجیب بات ہے کہ پشاور کے کور کمانڈر نے چارج سنبھالنے کے بعد سوات، قبائلی علاقوں میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے وہ اقدامات اور دورے کئے جو کہ وزیر اعلیٰ کو کرنے چاہئیں تھے. کور کمانڈر نے مختصر مدت میں سوات کے 3 جبکہ وزیرستان کے 5 دورے کیے جہاں انہوں نے نہ صرف سیکیورٹی فورسز کو درکار احکامات جاری کئے بلکہ مشران اور عمائدین کو بھی اعتماد میں لیا. اس کے برعکس وزیر اعلیٰ رواں سال ایک بار بھی وزیرستان نہیں گئے. بلکہ حالت تو یہ رہی کہ وزیر اعلیٰ سوات کے حملوں سے پیدا شدہ صورتحال کے دوران بھی لاتعلق رہے اور جب وفاقی حکومت اور کور ہیڈ کوارٹر نے معاملات کو سنبھالا تو وہ صرف ایک بار سوات گئے تاہم اس سے قبل ان کے ایک بھائی نے مٹہ سوات کے ایک اجتماع میں فوج کے خلاف نعرے لگوائے.
جس کور کمانڈر کی رہائش گاہ کے سامنے نعرے لگائے گئے وہ حالیہ سیلاب کے دوران پوری صوبائی حکومت سے ذیادہ فعال رہے اور فورسز ہی نے ان کی قیادت میں ریسکیو اور بحالی کے تمام معاملات کو سھنبالے رکھا. اس مصیبت میں بھی عمران خان کی صوبائی حکومت لاتعلقی پر عمل پیرا رہی.
اس تمام عرصے کے دوران صوبائی حکومت عمران خان کے ریاست مخالف پروپیگنڈا، ان کے لیے اپنے وسائل کے استعمال اور الزامات کی بھرمار جیسی سرگرمیوں تک ہی محدود رہی.
احتجاج کے دوران مردان سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی ظاہر شاہ طورو کی وہ ویڈیو بھی وائرل ہوگی ہے جس میں وہ بذات خود پاک فوج کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں. موصوف پہلے پیپلزپارٹی میں تھے پھر ممبر بننے کے لیے تحریک انصاف میں شامل ہوگئے جبکہ ان کی فیملی انہوں نے بعض دوسروں کی طرح بیرون ملک منتقل کی ہے. ایک اور وزیر نے حد کرکے کھلے عام نہ صرف فوج پر الزامات لگائے بلکہ کلاشنکوف لہراتے ہوئے عمران خان کے لیے جان دینے اور لینے کا اعلان بھی کیا. اسی طرح پنجاب میں جہاں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا وہاں ایک ہجوم نے گورنر ہاؤس پر بھی ہلہ بول دیا.
یہ تمام تر صورتحال یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ عمران خان فرسٹریشن کا شکار ہو کر نہ صرف اداروں کو کچلنے کی پالیسی اور عوام کو بغاوت پر آمادہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں بلکہ وہ اس ملک کی بدنامی اور ناکامی کا سبب بھی بنتے جا رہے ہیں جس نے ان کو وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا اور وہ یہ ذمہ داری نہ سنبھال پائے. جس راستے پر وہ گامزن ہیں اور جس طریقے سے وہ اپنے جذباتی کارکنوں کو ریاست کے خلاف استعمال کررہے ہیں وہ نہ صرف ریاست بلکہ پاکستان کے عوام کے لئے بھی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے اس لیے لازمی ہے کہ اس مسئلے اور جاری رویوں کا اجتماعی طور پر نوٹس لیا جائے اور قوم کو جاری ڈپریشن سے نجات دلائی جائے.