آرمی چیف کا پشاور و خیبر کا دورہ
عقیل یوسفزئی
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے گزشتہ روز تیراہ ویلی (ضلع خیبر) کا دورہ کیا اور کور ہیڈ کوارٹر پشاور بھی گئے جہاں ان کو سرحدی علاقوں کی سیکیورٹی، امن و امان کی صورتحال اور فوج کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بریفنگ دی گئی. انہوں نے یادگار شہدا پر پھول بھی چڑھائے اور ان سیکورٹی اہلکاروں، قبائلی عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دی ہیں.
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف نے پاک افغان سرحد پر موجود فوجی افسران اور جوانوں سے ملاقات اور بات چیت کی اور سرحد کی صورتحال کا جائزہ لیا. اس موقع پر انہوں نے کہا کہ امن کے قیام کے لئے قبائلی عوام اور فورسز کے جوانوں نے جو بے مثال قربانیاں دی ہیں ان کو کسی بھی قیمت پر رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا اور قوم کے تعاون سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی. ان کے مطابق امن کو سبوتاژ کرنے کی سازشی عناصر کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور یہ کہ ملک کی سیکیورٹی کے لئے ہر اقدام اٹھاکر ملکی دفاع کو یقینی بنایا جائے گا.
ان کو کور ہیڈ کوارٹر پشاور میں تفصیلی بریفنگ دی گئی اور امن و امان کے قیام کے لئے اٹھائے جانیوالے اقدامات سے آگاہ کیا گیا جس پر انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا.
یہ چارج سنبھالنے کے بعد آرمی چیف کا پہلا دورہ خیبر پختون خوا تھا جس سے ان کی ترجیحات کے حوالے سے بہت واضح پیغام ملا کہ وہ جاری صورتحال کا نہ صرف ادراک رکھتے ہیں بلکہ سرحدی کشیدگی اور جاری حالات سے نمٹنے کا عزم بھی رکھتے ہیں.
ان کے دورے اور واضح پیغام سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس جنگ زدہ صوبے کے امن کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور ان کی بطور سپہ سالار ترجیحات کیا ہیں.
پشاور کے کور کمانڈر اور ان کی ٹیم ویسے بھی اس تمام مرحلے کے دوران بہت متحرک رہے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ سوات اور متعدد دوسرے علاقوں کی صورتحال پر بہت جلد قابو پا لیا گیا. اگر چہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اس دوران حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور سیز فایر کے خاتمے کا اعلان بھی سامنے آیا اس کے باوجود صوبے بھر میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری رہے اور ہفتہ رفتہ کے دوران مختلف علاقوں میں تقریباً نصف درجن کارروائیاں کی گئیں.
ان کے دورے سے نہ صرف جوانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہوں گے بلکہ ان سیاسی اور عوامی حلقوں کو بھی کافی اطمینان ملا ہوگا جو کہ بدامنی کی جاری لہر کو تشویش کی نظر سے دیکھتے آئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ سیاسی کشیدگی کے باعث وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس صورتحال کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہیں جتنی لینی چاہیے.