عسکری قیادت کا دوٹوک موقف اور واضح پیغام

عسکری قیادت کا دوٹوک موقف اور واضح پیغام
عقیل یوسفزئی

9 مئ 2023 کو ایک سیاسی پارٹی نے فوجی اور قومی تنصیبات کو منظم حملے کرکے اپنے مستقبل کو سوالیہ نشان بنادیا تھا اور جب تحقیقات اور شواہد کی بنیاد یہ یہ ثابت ہوگیا کہ احتجاج کے نام پر کی جانے والی توڑ پھوڑ خانہ جنگی پر کرانے کی ایک منظم سازش تھی جس کو بعض عالمی طاقتوں اور لابیز کی آشیرباد بھی حاصل تھی تو ریاست نہ صرف پوری شدت کے ساتھ حرکت میں آئی بلکہ تحریک انصاف بھی بدترین توڑ پھوڑ کا شکار ہوگئی. 6 جون کی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق 9 مئ کے بعد 5 جون تک تقریباً 250 اہم قایدین، سابق وزراء اور ممبران اسمبلی یہ پارٹی چھوڑ چکے تھے. ایک اور رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں تقریباً 5000 عہدیداروں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے تھے، سینکڑوں جیلوں میں ٹھونسے جاچکے تھے تو درجنوں اہم قایدین اور سابق وزراء روپوش تھے جن میں اکثریت کا تعلق خیبر پختون خوا سے رہا.
مگر دوسری جانب عدالتوں نے ٹھوس شواہد کے باوجود درجنوں کارکنوں کو یا تو ضمانتیں دیں یا رہا کیا. یہ ویسی ہی ایک صورتحال ثابت ہوئی جیسے کہ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کے گرفتار کارکنوں کی رہائی کے معاملے پر ریاست کو درپیش رہی کہ عدالتوں نے بوجوہ سینکڑوں مطلوب افراد کو رہا کیا اور وہ بعد میں پھر سے سرگرم عمل ہوگئے.
9 مئ کے ہنگاموں میں براہ راست حملوں میں گرفتار شرپسندوں کو عدالتوں سے کتنی آسانی سے ضمانتیں ملتی رہیں اس کا اندازہ انسدادِ دہشتگردی تیمرگرہ (دیر) کے فیصلوں سے لگایا جا سکتا ہے جس نے محض ایک دن کے دوران 3 سابق ممبران اسمبلی سمیت 111 گرفتار ملزمان کی ضمانتیں منظور کیں جبکہ اسی روز (6 مئی) کو پشاور ہائی کورٹ نے ایسے ہی کیسز میں سابق وزیر علی محمد خان کی ضمانت بھی منظور کی. حالت یہ رہی کہ جناح ہاوس لاہور پر حملے کی پلانر یاسمین راشد کو بھی اس سے چند روز قبل ضمانت پر رہا کر دیا گیا.
خیبر پختون خوا میں اس تمام عرصے کے دوران کافی نرم رویہ اختیار کیا گیا جس پر بعض اہم پارٹیوں اور عوامی حلقوں نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا. اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ رہی کہ اکثر قایدین مسلسل روپوش رہے.
یہاں یہ انکشاف بھی ہوا کہ بعض اہم لیڈرز نے پاکستان سے ملحقہ بعض افغان علاقوں میں پناہ لی جبکہ بعض کے بارے میں یہاں تک کہا گیا کہ وہ افغانستان کے راستے بعض دیگر ممالک فرار ہوگئے ہیں. خطرناک انکشاف یہ بھی سامنے آیا کہ تحریک طالبان پاکستان نے متعدد لیڈرز کو نہ صرف سہولیات فراہم کیں بلکہ پناہ بھی دی.
اس سے قبل عمران خان کی گرفتاری سے قبل زمان پارک لاہور میں بھی ٹی ٹی پی کے بعض اہم کارکنوں کی موجودگی ثابت ہوگئی تھی جس پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا.
جو اہم لیڈر ان واقعات کے بعد روپوش رہے ان میں سابق وفاقی وزیر مرادسعید اور سابق وزیراعلیٰ محمود خان بھی شامل رہے. مراد سعید نے نہ صرف آن دی ریکارڈ کارکنوں کو کھلی مزاحمت پر اکسایا بلکہ ان پر ایک اینکر پرسن ارشد شریف کو دوران حکومت سرکاری سرپرستی میں پشاور لانے اور پشاور ایرپورٹ ہی سے دبئی بھیجنے کا سنگین الزام بھی ہے جس کے بعد مذکورہ اینکر پرسن کو کینیا میں مارا گیا اور مرادسعید سمیت ان کی پوری پارٹی نے اس موت کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر ڈال دی. موصوف نہ صرف اس سازش اور پروپیگنڈہ کا حصہ رہے بلکہ انہوں نے مسلسل یہ پروپیگنڈا بھی کیا کہ پاکستان کے ادارے جان بوجھ کر ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو پختون خوا بالخصوص سوات لیکر آئے تھے اور ان کے اس پروپیگنڈا کو عالمی میڈیا پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا حالانکہ جس وقت بعض طالبان سوات گھس آئے تھے اس وقت صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت تھی اور محمود خان ہی کے حلقے میں انہوں نے پہلی کارروائی کی تھی.
ان بعض واقعات سے ریاستی اداروں اور سیاسی حلقوں کو مختلف نتائج آخذ کرنے پڑے. سب سے بڑا نتیجہ یہ کہ اس تمام مجوزہ سازش میں جہاں بعض عالمی قوتیں اور لابیز شامل رہیں وہاں تحریک طالبان پاکستان اور بعض دیگر پاکستان مخالف گروپوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا. ایک فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ کی گرفتاری کو جس طریقے سے امریکی، برطانوی اور بھارتی میڈیا نے بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا اور 5 جون کو جس طریقے سے ایک امریکی ترجمان نے خدیجہ شاہ کی گرفتاری پر اس کے حق میں بیان جاری کیا اس سے بہت سی چیزیں واضح ہوگئی. ساتھ میں یہ بات بھی سب کی سمجھ میں آگئی کہ سابق امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد سمیت درجنوں امریکی عوامی نمائندوں نے عمران خان کے حق میں کھل کر پاکستان کی حکومت خصوصاً فوج کے خلاف مہم کیوں چلائی؟
اس ضمن میں 7 جون کو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں فارمیشن کمانڈرز کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں اس تمام صورتحال کے پس منظر، مقاصد اور عزائم کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور ایک جامع اعلامیہ میں دوٹوک الفاظ کے ذریعے کہا گیا کہ یہ ایک منظم اور طے شدہ سازش تھی اور اس میں ملوث افراد کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی. اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ نام نہاد انسانی حقوق کی آڑ میں اس سازش کے کرداروں کی وکالت کرنے کی بھی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی. یہ ان عالمی پراکسیز اور لابیز کو ریاست کی جانب سے واضح پیغام تھا جو کہ گرفتاریوں اور دیگر اقدامات کو سیاسی آذادی اور انسانی حقوق کے ہتھیاروں سے دبانے کی کوشش کرتی رہیں.
اس بات میں کوئی دو آراء نہیں کہ ہر سیاسی قوت کو ملک میں آزادی کے ساتھ سیاست کرنے کی اجازت ہونی چاہیے تاہم پر ملک میں ہر سرگرمی کی ایک مشروط اجازت ہوتی ہے اور 9 مئ اور اس کے بعد جو صورتحال سامنے آئی اس نے ریاست کو بہت سے سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا. کیونکہ پاکستان کو پہلے ہی سے متعدد سنگین چیلنجز کا سامنا رہا اور ایسے میں کسی مصلحت یا دباؤ میں انیوالا کوئی پالیسی پاکستان کی سلامتی کو داو پر لگانے کے مترادف سمجھا گیا. جس روز فارمیشن کمانڈرز کی میٹنگ میں اہم فیصلے کئے گئے اسی روز تحریک طالبان پاکستان نے ایک بیان جاری کیا جس میں پاکستانی ریاست کے ساتھ کسی مجوزہ مذاکراتی عمل کے بارے میں کہا گیا کہ اپنے مقاصد کی حصول کے بغیر تحریک طالبان پاکستان نہ تو ایسے کسی عمل کا حصہ بنے گی اور نہ ہی ھتھیار ڈالے گی.
بیان میں کہا گیا کہ نتیجہ خیز مذاکرات کئے بغیر ٹی ٹی پی کی جدوجہد اور مزاحمت جاری رہے گی.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket