ملٹری کورٹس کا واویلا اور سول عدالتوں کی کارکردگی

ملٹری کورٹس کا واویلا اور سول عدالتوں کی کارکردگی
عقیل یوسفزئی

پاکستان کا تفتیشی اور عدالتی نظام کھبی قابل ستائش نہیں رہا. سیاسی بنیادوں پر پولیس افسران کی تعیناتی اور ان کے ذریعے مختلف نوعیت کے مقدمات اور ان کی تفتیش کا طریقہ کار نہ صرف ہر دور میں تنقید کی ذد میں رہا ہے بلکہ اس سسٹم کے نتیجے میں دیئے جانیوالے اکثر عدالتی فیصلے مقامی اور عالمی سطح پر متنازعہ ہی رہے ہیں. انصاف میں تاخیر اور ججز کی سیاسی وابستگی نے معاشرے کو زنگ آلود بناکر رکھدیا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ عوام پولیس کی طرح عدالتوں پر بھی اعتماد نہیں کرتے.
کچھ عرصہ سے ایک بار پھر ایلیٹ کلاسز میں ملٹری کورٹس کے ذریعے 9 مئ کے بدترین واقعات میں ملوث شرپسندوں کی ٹرایل کا معاملہ زیر بحث لایا گیا ہے. انسانی حقوق کے نام پر نعرے بازی کرنے والے بعض وہ وکلاء ان کورٹس کے قیام پر سخت معترض ہیں جو کہ عام کیسز میں بھی کروڑوں کا فیس لینا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں. ان کو شاید ابھی تک 9 مئ کے حملوں کے پس منظر اور نتائج کا ادراک نہیں ہورہا. اور نہ ہی انہیں اس بات سے کوئی غرض ہے کہ پاکستان کے قانونی اور عدالتی نظام میں ملٹری کورٹس پہلے سے موجود ہیں.
9 مئ کے حملوں کی ذمہ دار ایک سیاسی جھتہ اس مجوزہ ٹرایل کی مخالفت کررہا ہے کیونکہ یہی جھتہ اس کی ذد میں انیوالا ہے تاہم یہ لوگ اور ان کے حامی وکلاء یہ حقیقت بھول رہے ہیں کہ ان کی اپنی حکومت میں نہ صرف ملٹری کورٹس نے سب سے زیادہ فیصلے دیے ہیں بلکہ 2019 کے دوران جب پشاور ہائی کورٹ نے تقریباً 200 افراد سے متعلق ملٹری کورٹس کے بعض فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا تو عمرانی سرکار نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا.
اسی حکومت کے دوران خیبر پختون خوا میں تقریباً 23 ملزمان کو ملٹری کورٹس سے سزائیں سنائی تھیں تاہم اس وقت نہ تو عمرانی ٹولے کو اس پر اعتراض کی ہمت ہوئی اور نہ ہی ان وکلاء وغیرہ نے اس کا کوئی نوٹس لیا جو کہ اب 9 مئ کے شرمناک واقعات میں ملوث شرپسندوں کو بچانے کے غم میں مرے جارہے ہیں.
یہ دہرا معیار سمجھ میں نہیں آرہا مگر یہ بات عام لوگ بھی اچھی طرح سمجھ پائے ہیں کہ اس شورشرابے کے پیچھے محرکین کے مقاصد کیا ہیں اور وہ کن کو بچانے کی کوشش میں ہیں.
اگر مگر اور چونکہ چنانچہ پر توجہ دینے کی بجائے ریاست کو 9 مئ کے حملوں میں ملوث افراد کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ آیندہ کے لیے پاکستانی ریاست کو اس قسم کی صورتحال سے بچایا جائے اور عدالتی فیورٹ ازم کا مستقل طور پر راستہ روکا جاسکے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket