تحصیل متھراالیکشن
وصال محمدخان
گزشتہ دن پشارکے تحصیل متھراچیئرمین کیلئے ووٹ ڈالے گئے حیرت انگیزطورپراس انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوارکامیاب ٹھہرے اس کامیابی کے پیچھے جوعوامل کارفرماتھے ان میں پی ڈی ایم جماعتوں کی آپسی عدم اتفاقی کافیکٹرنمایاں ہے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں یاانکے اتحادی پیپلزپارٹی اوراے این پی اگرمل کرکسی ایک امیدوارپرمتفق ہوجاتیں توبلاجھجک کہاجاسکتاہے کہ پی ٹی آئی امیدوارکبھی کامیابی کامنہ نہ دیکھ پاتا ۔کیونکہ ان جماعتوں کے ووٹ ملاکر23ہزارکے لگ بھگ بنتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی امیدوارنے بیس ہزارکے قریب ووٹ حاصل کئے اس کامیابی پرپی ٹی آئی کے کارکنوں کے حوصلے بلندی کی انتہاؤں کوچھورہے ہیں اوروہ کل سے سوشل میڈیاپریہ مہم چلارہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں بھی پی ٹی آئی اسی طرح طوفانی کامیابی حاصل کرے گی مگرحقائق ان دعوؤں کے برعکس ہیں کسی ایک بلدیاتی نشست کوعام انتخابات پرمنطبق کرناقرین قیاس نہیں جہاں تک پی ڈی ایم جماعتوں کی شکست کاتعلق ہے تواس میں نمایاں اوراہم کرداردہشت گردی نے اداکیاہے.
جے یوآئی کے ورکرزکنونشن پرباجوڑحملے نے نہ صرف اس جماعت بلکہ دیگرجماعتوں کے کارکنوں کے حوصلے بھی پست کردئے ہیں جبکہ یہ تاثربھی عام ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی چونکہ پی ٹی آئی کی احسان مندہے اس نے اپنی دورِحکومت میں نہ سرف اس کالعدم دہشت گردتنظیم کوسہولیات فراہم کیں بلکہ اس پرکئی احسانات کئے جن میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ جیلوں سے دہشت گردوں کے ساتھی رہاکئے گئے اورافغانستان بھاگے ہوئے دہشت گردوں کویہاں لاکردوبارہ آبادکیاگیاجواب پرپرزے نکال کر دہشت گردکارروائیوں میں ملوث ہورہے ہیں۔ دہشت گردوں پرکئے گئے ان احسانات کے نتیجے میں وہ اب تحریک انصاف کے مخالفین کونشانہ بنارہے ہیں جس کے باعث پی ڈی ایم اوراتحادی جماعتیں الیکشن مہم چلانے سے قاصررہیں انکے کارکنوں میں بھی باجوڑواقعے کے بعد خوف وہراس پائی جارہی ہے اورپارٹی قائدین بھی کسی سانحے سے بچنے کیلئے کھل کرانتخابی میدان میں نہیں اتررہے جس کالازمی نقصان انہیں شکست کی صورت میں ہوا،اگریہ جماعتیں اپنے فروعی اختلافات کوایک جانب رکھ کرمیدان میں اترتیں توکوئی وجہ نہیں کہ تحریک انصاف کے امیدوارکوعبرت ناک شکست نہ ہوتی۔
اسی روزحویلیاں ایبٹ آبادمیں بھی ایک ضمنی بلدیاتی انتخاب کاانعقادہواجس میں پی ٹی آئی امیدوارکوآزادامیدوارکے ہاتھوں شکست فاش سے دوچارہوناپڑا،اگرپی ٹی آئی اتنی ہی مقبول جماعت ہوتی توحویلیاں میں شکست کیونکرہوتی؟ درحقیقت پی ٹی آئی کی مقبولیت صوبے سے ختم ہوچکی ہے اب جوتھوڑابہت ووٹ بنک باقی ہے یاتحصیل متھرامیں اسے جوفتح حاصل ہوئی ہے اس میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کی بجائے دیگران گنت عوامل کارفرماہیں ایک توپی ڈی ایم جماعتوں کی نگران حکومت میں ناقص کارکردگی اوروزراپرکرپشن کے الزامات نے بھی اس شکست میں اہم کرداراداکیادوسرے پی ڈی ایم اوراتحادیوں کوشروع سے نگران کابینہ کاحصہ نہیں بنناچاہئے تھا نگران کابینہ ہمیشہ غیرسیاسی بنیادوں پروجودمیں آتی ہے مگریہاں پی ڈی ایم نے اس اصول کوبالائے طاق رکھ کرنگران کابینہ میں بھی اپنے آدمی بٹھادئے جس کانقصان توہوناتھا ورنہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں اسی نشست پرتحریک انصاف کے امیدوارحکومتی مددکے باوجودآخری نمبرآئے تھے اس عرصے میں تحریک انصاف نے عوام کیلئے ایساکونساکارنامہ انجام دیاجس کے سبب اسے مقبولیت حاصل ہوئی؟
پی ٹی آئی کی گزشتہ محمودخان اوروفاق میں عمران خان حکومت نے کرپشن ،اقرباپروری ،بدعنوانی اوربدانتظامی کی صورت میں جواودھم مچایاتھااسکے نتیجے میں گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں اس کاٹکٹ لینے والاکوئی نہیں تھااگران بلدیاتی انتخابات میں حکومتی وسائل کابے دریغ استعمال نہ ہوتاتویقیناًآج بلدیاتی اداروں سے تحریک انصاف کاصفایاہوچکاہوتا ۔تحصیل متھراالیکشن پی ڈی ایم اوراتحاد دی جماعتوں کیلئے سبق ہے کہ انہیں آمدہ انتخابات میں مل جل کرمیدان میں اترناہوگا،نگران کابینہ سے اپنے وزراکوفارغ کرواناہوگا،عوام سے رابطے میں رہناہوگا،عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی لیناہوگی ، عوام کوعمران خان اورتحریک انصاف کی کارستانیاں بتانی ہونگی اورسب سے بڑھ کرآپسی اتحادواتفاق پرغورکرناہوگاورنہ الگ الگ رہ کرفائدے کی بجائے نقصان اٹھاناپڑے گا تحریک انصاف کی مقبولیت کاصو بے سے خاتمہ ہوچکاہے مقبولیت کیلئے کارکردگی کی ضرورت ہوتی ہے تحریک انصاف کی صوبے میں دوادواراوروفاق میں پونے چارسال کے دوران ایساکوئی کارنامہ انجام نہیں دیاگیاجس کے باعث عوام انہیں جھولیاں بھربھرکرووٹ دیں اوراسکے امیدوارکامیاب ہوں آمدہ انتخابات میں تحریک انصاف ذلت آمیزشکست سے دوچارہوسکتی ہے اگرپی ڈی ایم اوراتحادی جماعتیں کسی مربوط حکمت عملی پرعمل پیراہوکر انتخابی میدان میں اتریں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے اتفاق واتحادکامظاہرہ کریں اورایک دوسرے کاراستہ کاٹنے کی بجائے راستہ دیں توکوئی وجہ نہیں کہ آئندہ انتخابات میں صوبے سے تحریک انصاف کاصفایانہ ہواورجوجماعت عوامی حمایت کی بجائے چوردروازے سے اقتدارحاصل کرنے کی خواہاں ہے یہ اس کیلئے آخری انتخابات ثابت ہوں ۔اگر آئندہ انتخابات میں اگرپی ڈی ایم اوراتحاد ی جماعتیں ایک دوسرے کی خاطرقربانی دیں تومستقبل کیلئے تحریک انصاف کا مقابلہ کرسکیں گے ۔
تحریک انصاف کی مقبولیت کے غبارے سے نکل چکی ہے جس کاثبوت عمران خان کی گرفتاری پرکسی ایک شخص کابھی نہ نکلناہے.کم ازکم صوبے کے کسی حصے میں کوئی احتجاجی مظاہرہ ہی کیاجاتاایساکچھ نہیں ہواجواس بات کاواضح اشارہ ہے کہ عمران خان اورتحریک انصاف صوبے میں مقبول نہیں رہے۔ تحصیل متھراکاانتخاب پی ڈی ایم جماعتیں اپنی غلطیوں اورنااتفاقی کے سبب ہاری ہیں ان جماعتوں کوازسرنواپنی صفیں ترتیب دیناہو نگی اورسیاسی تدبرکامظاہرہ کرناہوگا۔