خیبر پختونخوا کا سیاسی منظرنامہ

وصال محمد خان
نگران صوبائی کابینہ نے اگلے چارماہ کابجٹ منظورکرلیا ہے بجٹ کی منظوری سے قبل یہ خبرگرم تھی کہ حکومت تنخواہوں میں 25فیصدکٹوتی یا پھرجاری بجٹ میں کیاگیا35فیصداورپنشن میں 17.50فیصداضافہ واپس لینے کاارادہ رکھتی ہے مگرحکومت نے ان اقدامات سے گریزکیا اور79ارب روپے خسارے کابجٹ منظورکرلیا یہ بجٹ نومبرسے فروری تک چارماہ کیلئے ہے بجٹ کاحجم529ارب روپے ہے جبکہ آمدن کاتخمینہ 450ارب روپے لگایاگیاہے ترقیاتی کاموں کی مدمیں بندوبستی اضلاع کیلئے112ارب جبکہ ضم قبائلی اضلاع کیلئے71ارب روپے مختص کئے گئے ہیں مالی صورتحال مخدوش ہونے کے باوجودسرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سے کٹوتی نہیں کی گئی اوراسے وفا ق سے واجبات کی ادائیگی کیساتھ مشروط کیاگیاہے،تین برسوں سے خالی اسامیوں کوختم کیاگیاہے،نئی بھرتیوں، گاڑیوں کی خریدار ی،سرکاری خرچ پربیرون ملک علاج،سیمینارزکاانعقاداوراس میں شرکت پرپابندی عائدکردی گئی ہے۔جولائی تااکتوبر بجٹ کاحجم462ارب93کروڑ روپے تھا۔گزشتہ مالی سال کے دوران پہلے آٹھ مہینوں کے بجٹ کاحجم 888ارب تھاجبکہ رواں مالی سال اس عرصے میں یہ حجم992 ارب روپے ہوچکاہے جوسال کے اختتام پر1350ارب روپے ہونے کاامکان ہے، ابتدائی چارماہ کاجاریہ بجٹ 350ارب جبکہ اگلے چارماہ کابجٹ417ارب روپے ہے وزیرخزانہ کے مطابق بجٹ کے حجم میں اضافہ پٹرولیم، یوٹیلٹی بلز،گندم سبسڈی،صحت کارڈ،اور درسی کتب کی لاگت میں اضافے کے سبب ہوا،آٹھ ماہ کی ترقیاتی بجٹ کامجموعی حجم 225ارب ہوچکاہے، اگلے چارماہ کے دوران تنخواہوں پر170 ارب جبکہ پنشن کی مدمیں 47ارب روپے خرچ ہونگے۔جولائی تاستمبرکی سہ ماہی میں حکومت کو دس ارب روپے خسارے کاسامناہے وفاقی حکومت کی جانب سے جاری شدہ اعدادوشمارکے مطابق پہلی سہ ماہی میں صوبے کومجموعی طورپر 217ارب روپے موصول ہوئے جبکہ اخراجات 227ارب رہے این ایف سی کے تحت صوبے کو177ارب روپے ملے۔رواں چارماہی بجٹ میں حکومت نے تنخواہوں میں 35فیصدجبکہ پنشنزمیں ساڑھے سترہ فیصد اضافہ کیاتھا نگران حکومت نے وفاق کی نقالی میں اضافہ توکر دیامگراب اسے واپس لینے کے درپے ہے نئے بجٹ میں یہ اضافہ واپس نہیں لیاگیامگراس پروفاق سے فنڈزملنے کی تلوارلٹکادی گئی ہے۔ اضافے سے حکومت کو41ارب روپے کااضافی بوجھ برداشت کرناپڑا۔اگروفاق سے واجبات واگزار ہوں تونہ صرف تنخواہوں اورپنشنزکااضافہ واپس نہیں لیاجائیگابلکہ حکومت کی مالی مشکلات میں بھی کمی واقع ہوگی۔گورنر غلام علی نے بھی وفاقی وزیر خزانہ شمشاداخترسے ملاقات میں انہیں صوبے کے مالی مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ فنڈزکے عدم اجرا سے ضم قبائلی اضلاع کے عوام میں مایوسی اوربے چینی بڑھ رہی ہے، صوبہ شدیدمالی بحران سے دوچارہے اورملازمین کی تنخواہیں اداکرنے کیلئے رقم موجودنہیں،وزیر یراعظم کی یقین دہانی پرسستاآٹاسکیم کیلئے رقم فراہم کی تاہم صوبے کوتاحال وہ رقم بھی نہ مل سکی۔شمشاداخترنے کہاکہ صوبے کے مالی مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں وزیراعظم کی ہدایت پرسیکرٹری خزانہ کیساتھ اجلاس منعقدکررہے ہیں جس میں ضم اضلاع سمیت صوبے کے مالی مسائل کاحل نکالنے کی کوشش کی جائیگی۔صوبہ گزشتہ بیس سال سے فرنٹ لائن پر دہشت گردی کامقابلہ کررہاہے اب بھی امن و امان کے ضمن میں سنگین مسائل کاسامناہے وفاق کی جانب سے فنڈزکی عدم ادائیگی مشکلات میں اضافے کاباعث ہے وفاق کواس ضمن میں ذمہ داری کامظاہرہ کرناچاہئے اگرچہ ملکی معاشی حالات دگرگوں ہیں مگرباقی کسی صوبے کے فنڈزنہیں روکے گئے پھرخیبرپختونخواکیساتھ سوتیلی ماں جیساسلوک چہ معنی دارد؟وفاقی حکومت اتنے فنڈزضرورجار ی کرے کہ صوبائی حکومت کوتنخواہوں میں کٹوتی نہ کرنی پڑے کٹوتی جیسا سنگین فیصلہ مہنگائی سے متاثرہ شہریوں پرظلم کے مترداف ہوگا۔
گیس کی قیمت میں اضافے کے خلاف سی این جی مالکان نے دودن تک ہڑتال کی دوسرے دن ہڑتال توختم کی گئی مگریکم نومبرسے سی این جی کی قیمت میں دوگنااضافہ متوقع ہے۔صوبے میں پبلک ٹرانسپورٹ کی اکثریت سی این جی استعمال کررہی ہے جس کے سبب شہریوں کی مشکلات میں مزیداضافہ ہوگا طلبہ وطالبات سمیت سرکاری ملازمین پراضافی بوجھ آن پڑاہے سی این جی سیکٹر سے بلواسطہ اوربلاواسطہ لاکھو ں افرادکاروزگاروابستہ ہے ہوشربامہنگائی سے غریب کی کمرپہلے ہی ادھ مواہوچکی ہے حکومت کوگیس کی قیمتوں میں اضافے پرنظرثانی کرنے کی ضرورت ہے سی این جی کی قیمت پہلے ہی 240روپے کلوہے حالیہ اضافے سے یہ قیمتیں 4سوروپے کلو سے بڑھ جائیں گی جو مہنگائی کے ستائے عوام کیلئے یقیناً ناقابل برداشت بوجھ ہے۔
غیرقانونی طورپرمقیم افغان مہاجرین کی واپسی کاعمل جاری ہے حکومت کی جانب سے دی گئی ڈیڈلائن میں اب دودن کاوقت باقی ہے۔یکم نومبرسے غیرقانونی مقیم افغان مہاجرین کی گرفتاری کاعمل شروع کیاجائیگا۔افغان فنکاروں نے انخلاکے خلاف پشاورہائیکورٹ میں رٹ دائرکی جس میں مؤقف اپنایاگیاتھاکہ درخواست گزارافغانستان سے تعلق رکھتے ہیں اورفنکارہیں جوپاکستان کے مختلف مہاجرکیمپس میں رجسٹریشن کے بعدخاندانوں سمیت رہائش پذیرہیں طالبان کی حکومت سنبھالنے پرہم نے وہاں سے ہجرت کی وہاں ہمارے کاروبارپر پابندی عائدتھی اورہمارے خلاف کارروائی کے احکامات بھی جاری ہوگئے تھے۔ہائیکورٹ نے کیس نمٹاتے ہوئے قراردیاکہ حکومت نے غیرقانونی طورپرمقیم تارکین وطن کے انخلاکافیصلہ کیاہے قانونی دستاویزات کے تحت مقیم افرادکوبے دخل نہیں کیاجارہا۔متعلقہ حکومتی اداروں نے غیرقانونی طورپرمقیم،جعلی دستاویزات رکھنے والوں اورویزے کی مدت ختم ہونے کے باوجودقیام کرنے والوں کاڈیٹااکھٹاکر رکھاہے ڈیڈلائن ختم ہونے پران افرادکے خلاف کارروائی ہوگی اورانہیں گرفتارکرکے ملک بدرکیاجائیگا۔وزیراعلیٰ اعظم خان کااس حوالے سے کہناتھاکہ غیرقانونی طورپرمقیم غیرملکیوں کے انخلاکاپروگرام ترتیب دیاگیاہے یکم نومبرتک یہ افرادرضاکارانہ طورپرواپس جاسکتے ہیں صوبائی حکومت انکی ہرممکن مددکرے گی طورخم کے راستے 60ہزارافرادواپس جاچکے ہیں یکم نومبرکے بعدقانونی کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔محکمہ داخلہ میں کنٹرول روم بھی قائم کیاگیاہے جس میں پولیس،نادرا،ایف آئی اے،کمشنرافغان مہاجرین اور سیکیورٹی حکام24گھنٹے ڈیوٹی انجام دینگے جوافغان مہاجرین واپسی کی نگرانی کریں گے۔
پی ٹی آئی وفدکی مولانافضل الرحمان سے ملاقات نے بھی سرخیوں میں جگہ بنائی اگرچہ اس ملاقات کامقصدمحض تعزیت بتائی جارہی ہے مگر اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ملاقات کے سیاسی مقاصدبھی ہیں جوجلدسامنے آئیں گے۔وفدنے مولاناکی امامت میں نماز مغرب اداکی جوسوشل میڈیاپرٹاپ ٹرینڈرہااوراس پردلچسپ تبصروں کاسلسلہ جاری ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket