8 فروری کو عام انتخابات کرانے کا اعلان اور درپیش چیلنجز

8 فروری کو عام انتخابات کرانے کا اعلان اور درپیش چیلنجز
عقیل یوسفزئی
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے اصرار پر خلاف توقع اعلان کیا ہے کہ ملک میں 8 فروری 2024 کو عام انتخابات کرائے جائیں گے. سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن کے حکام نے صدر ڈاکٹر عارف علوی سے بھی ایک ملاقات کی جس کے بعد یہ امکان یقین میں بدلتا دکھائی دینے لگا ہے کہ فروری میں واقعی عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا. اگر چہ اہم سیاسی جماعتوں نے تادم تحریر اس اعلان یا فیصلے کا اس انداز میں خیر مقدم نہیں کیا ہے جس کی توقع کی جارہی تھی تاہم اس یقین دہانی کا اچانک اعلان سے وہ افواہیں وقتی طور پر دم توڑ گئی ہیں جن میں یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ شاید موجودہ نگران سیٹ اپ ایک دو برسوں کے لیے مزید قائم رہے گی.
سیاسی جماعتوں کی جانب سے سردمہری کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ وہ اس فیصلے کو کسی پراپر یا رسمی اعلان کی بجائے سپریم کورٹ کی ایک پراسیس کے دوران دیے گئے جواب کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں. دوسری وجہ یہ بتائی جاسکتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت یہ توقع لگائی بھیٹی تھی کہ تحریک انصاف کو سیاسی اور انتخابی عمل سے باہر رکھنے کا کوئی راستہ نکل آئے گا اور ان کے لیے میدان خالی رہ جائے گا.
اس میں دو سے زیادہ آراء موجود ہیں کہ نگران حکومت نے بوجوہ 9 مئی کے سنگین واقعات کے ذمہ داران کے خلاف اس نوعیت کی کارروائیاں نہیں کیں جن کی توقع کی جارہی تھی. اس کی وجہ شاید اعلیٰ عدالتوں کے بعض وہ فیصلے بھی ہیں جن کے ذریعے فوجی عدالتوں سمیت بعض دیگر اقدامات کے خلاف متوقع قانونی کارروائیوں کا راستہ روکا گیا. اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اب بھی سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں یہ تاثر شدت کے ساتھ موجود ہے کہ ماضی میں بعض واقعات کی آڑ میں بعض سیاسی جماعتوں کے ساتھ جو سخت رویہ اختیار کیا گیا اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کے ساتھ عدالتوں نے غیر معمولی رعایت برتنے کا رویہ اختیار کیا. سابق وزیراعظم کو دی جانے والی سہولیات کی فراہمی پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے. اس پس منظر میں سپریم کورٹ ہی کے ایک فیصلہ کو سیاسی جماعتوں کے علاوہ بعض بااثر اداروں کی جانب سے بھی ناپسیندگی کا سامنا ہے جو کہ فوجی عدالتوں کو کالعدم قرار دینے سے متعلق تھا. اس پس منظر ہی کا نتیجہ ہے سیاسی قوتوں کو اس کے باوجود خدشات کا سامنا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے واقعتاً خود کو ایسے سیاسی معاملات یا روایتی دلچسپی یا مبینہ مداخلت سے دور رکھا ہے جو کہ اچھی بات ہے. نگران وزیراعظم متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ کسی سیاسی پارٹی کو انتخابات یا سیاسی عمل سے باہر کرنا نگران حکومت کا مینڈیٹ نہیں ہے تاہم اس تناظر میں اس شکوے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مخصوص پارٹی کے 9 مئی اور اس کے بعد جو طرزِ عمل اختیار کرکے پاکستان کے اداروں اور ساکھ کو جو نقصان پہنچایا اسے اس کی سزا ملنی چاہیے. یہ اس لیے بھی لازمی ہے کہ کل کو دوسروں کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہو.
جہاں تک فروری میں انتخابات کرانے کا تعلق ہے اس بارے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت بعض دیگر لیڈروں اور حلقوں کی آراء، تحفظات اور تجاویز کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا. فروری میں پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے اکثر علاقے سردی کی لپیٹ میں ہوتے ہیں اور امیدواروں، کارکنوں کے لیے انتخابی مہم چلانا مشکل ہوگا. اس کے علاوہ ان دو صوبوں میں سیکیورٹی کی صورتحال بھی دوسرے صوبوں یا علاقوں میں اطمینان بخش نہیں ہے. ان دو بنیادی عوامل کو ہر صورت ذہن میں رکھنا چاہیے کیونکہ بعض سیکورٹی ادارے پہلے ہی معذرت کرچکے ہیں کہ وہ درپیش چیلنجز کے باعث انتخابی عمل کو درکار سیکورٹی فراہم نہیں کرسکتے. اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو ایک منتخب عوامی حکومت کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو بحران سے نکالنے میں مدد ملے تاہم اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ الیکشن کا ماحول بنانے اور مناسب اقدامات کو یقینی بنانا بھی بہرحال ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس پر سب کو سوچنے کی ضرورت ہے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket