مقدمات کی تاخیر، ذمہ دارکون؟

وصال محمد خان
انصاف کے بغیرکسی معاشرے کاتادیرقائم رہناممکن نہیں شیرخداحضرت علی ـ رضی اللہ عنہ کے قول مبارک سے تقریباًہرذی شعورشخص واقف ہے کہ ‘‘کفرکے معاشرے قائم رہ سکتے ہیں مگرظلم کے نہیں’’۔وطن عزیزپاکستان میں انصاف کا نظام اکثروبیشترتنقیدکی زدمیں رہتاہے شہریو ں کودیگرکئی شکایتوں سمیت یہ شکوہ بھی رہتاہے کہ مقدمات کی شنوائی میں غیرضروری تاخیرہوتی ہے اورسالہاسال تک یاتو مقدمات کی تاریخ نہیں لگتی یاپھرفیصلوں میں غیرضروری تاخیرکاسامناکرناپڑتاہے بین الاقوا می ادارے بھی انصاف فراہمی کے ضمن میں ہماری رینکنگ نچلی نمبروں پردکھاتے ہیں یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ ملک کے دیگرسسٹمزکی طرح جسٹس سسٹم میں بھی ان گنت خامیاں موجودہیں ۔ جنہیں درست کرنے کی اشدضرورت ہے یہاں انصاف تاخیرسے ملتاہے،بروقت نہیں ملتا،عدالتی فیصلے درست نہیں ہوتے ان پرانگلیا ں اٹھائی جاتی ہیں اورانہیں سرعام تنقیدکانشانہ بنایاجاتاہے ۔اس ضمن میں،بیشتراوقات عدالتی فیصلوں پرپوری الیکشن مہم چلائی جاتی ہے۔ کوئی عدالتی فیصلہ بیک وقت دومتحارب سیاسی جماعتیں اپنی اپنی مفادکیلئے دھڑلے سے استعمال کرتی ہیں،دیگرتمام شعبوں کی طرح یہ شعبہ بھی زوال کاشکارہے جس کی ذمہ داری عدالتی نظام سے منسلک افرادپرڈالی جاسکتی ہے اگرکہاجائے کہ دیگربہت سے عوامل کے علاوہ وکلاکا کردارسب سے اہم ہے توکچھ زیادہ غلط نہیں ہوگا۔وکلاکسی کیس کولٹکاناچاہیں توبرسوں گزرجاتے ہیں مگراسکی شنوائی ممکن نہیں ہوتی ۔راقم وثیقہ نویسی کاکام بھی کرتاہے کوئی چھ سات ماہ قبل ایک معاہدہ عدالت میں چیلنج ہواعدالت میں کوئی معاہدہ چلاجائے تووثیقہ نویس کی گواہی ضروری سمجھی جاتی ہے مجھے عدالتی اہلکارنے واٹس ایپ پرعدالت میں پیش ہونے کی اطلاع فراہم کی ہم چونکہ شریف اوربزدل شہری ہیں اسلئے مقررہ تاریخ پرصبح نوبجے عدالت میں حاضرہوکرریڈرکے پاس حاضری لگوائی جس نے حکم دیاکہ باہربیٹھ جاؤ جب ضرورت ہوگی تو بلالیں گے مئی کامہینہ تھاسخت گرمی میں پتھرکی بنچ پربیٹھارہاکہیں آجابھی نہیں سکتاتھاکیاپتاکس وقت آوازلگے اورمیری غیرحاضری توہین عدالت کے زمرے میں شمارکی جائے کمال یہ ہے کہ عدالت ‘‘ملزم’’ کی کوئی بات سننابھی گوارانہیں کرتی دن کے ایک بجے تک کوئی آواز نہیں لگی اتنے میں مقدمے کامدعی میرے پاس آیااورکہاکہ آج وکیل موجودنہیں اس لئے تاریخ پڑگئی میں نے ظہرکی نمازکچہری کے احاطے میں اداکی اورجاکرریڈر کوآگاہ کیاکہ میرے لئے کیاحکم ہے چونکہ میں عدالت کے حکم پرحاضرہواتھااسلئے عدالت سے اجاز ت لیناضروری تھاعدالتی اہلکارنے کہاچونکہ وکیل صاحب چھٹی پرتھے آج تاریخ بدل گئی ہے کوئی ستائیس دن بعدکی تاریخ دی گئی ہے۔ دوسری تاریخ پرجون کی سخت گرمی میں ایک مرتبہ پھرمیں حاضرہوااس دن وکیل صاحب تحصیل عدالت میں پیشی پرتشریف لے گئے تھے اسلئے حسب معمول مجھے ایک بجے تک وہاں بلامعاوضہ ڈیوٹی دینی پڑی تیسری پیشی پرایک مرتبہ پھرمیں تھااورعدالتی اہلکاروں کے پاس حاضری تھی میں نے ریڈرسے درخواست کی کہ جناب میں تین تاریخوں پر مسلسل آرہاہوں مگروکیل صاحب میری شہادت ریکارڈنہیں کر رہے آپ پلیزمجھ پررحم کیجئے ریڈرنے حکم دیاآپ باہربیٹھ جائیں یہ وکیل صاحب کاکام ہے میرا نہیں۔ اس پیشی پرآخری وقت میں پتاچلا کہ وکیل صاحب کے کسی عزیزکی فوتگی ہوئی ہے اسلئے پندرہ دن کی تاریخ پڑگئی پندرہ دن بعدچوتھی بارمیری پیشی ہوئی توریڈرکے پاس حاضرہواتواس نے کہاکہ آج وکلاکی ہڑتال ہے آپ باہربیٹھیں کچھ ہی دیرمیں تاریخ بدل جائیگی اورآپکو بتادیاجائیگامیراانتظارایک مرتبہ پھرگھنٹوں پرمحیط ہوااورمجھے ایک بجے کے قریب سترہ دن بعد کی تاریخ کابتادیاگیااگلی پیشی پروکیل صاحب موجودتھے میں نے ان سے درخواست کی کہ جناب میں اس کیس میں رضاکارانہ گواہ ہوں مجھے نہ ہی ریاست اورنہ ہی کیس کامدعی کوئی معاوضہ دیتاہے لہٰذاپلیزمیری شہادت ریکارڈکرکے مجھے فارغ کیاجائے وکیل نے کہاکہ آپ سے ہرپیشی پرآنے کیلئے کس نے کہاتھا؟آپ کوبیچ میں ناغہ کرناچاہئے تھا اس مرتبہ تومخالف وکیل موجودنہیں اسلئے اگلی تاریخ پرآپکی شہادت ریکارڈکی جائیگی اوراسکے ساتھ ہی اپنے مؤکل کوہدایت کی کہ یاراس غریب آدمی کوکوئی خرچہ پانی دو۔مدعی مقدمہ نے مجھے کہاکہ اپناایزی پیسہ اکاؤنٹ دومیں آپکورقم بھیج دوں گاوہ بھی اپناوعدہ بھول گیااگلی پیشی پرمیں حاضرنہ ہوااورعذرپیش کیاکہ جناب عالی !میراایک قریبی عزیزفوت ہواتھااورمجھے عدالت کی جانب سے کوئی سمن بھی موصول نہیں ہوا۔ ریڈراوروکلانے برہمی کااظہارکرکے کہا،ابھی اسی کیس میں پٹواری کی شہادت لیتے ہیں اسکے بعدآپکی شہادت لی جائیگی ایک مرتبہ پھرمیں ایک بجے تک عدالت کے احاطے میں ناکردہ جرم کاقیدی بنا بیٹھارہاایک بجے وکیل بادشاہ نے بتایاکہ میں بہت تھک چکاہو ں اگلی پیشی پرآپکی شہادت ریکارڈکی جائیگی۔ اس طرح اس کیس میں، میں سات پیشیاں بھگت چکاہوں مگرمیری شہادت ابھی ریکارڈنہیں ہوئی ۔شہادت بھی کیاہے بس مجھ سے پوچھناہے کہ آپ کس اتھارٹی کے تحت معاہدے تحریرکرتے ہیں ؟ اورکیایہ معاہدہ آپ نے تحریر کیاہے؟ اگرہاں تواپنے رجسٹرمیں ریکارڈدکھاؤ؟۔وثیقہ نویس کی شہادت کابھی عجیب قانون ہے وثیقہ نویس دوفریقوں کے مابین ہونے والے معاہدوں کوتحریری شکل دیتاہے اس پرکوئی مسئلہ اٹھتاہے تواسی معاہدے پرکوئی فریق عدالت سے رجوع کرتاہے عدالت وثیقہ نویس سے یہ گواہی مانگتی ہے کہ واقعی یہ معاہدہ اس نے تحریرکیاہے ؟وثیقہ نویس صرف اس گواہی کیلئے سات مرتبہ عدالت میں پیش ہوتاہے مگراسکی شہادت ریکارڈنہیں ہوپاتی اس پرمستزادیہ کہ وثیقہ نویس کوان پیشیوں کاکوئی معاوضہ نہیں ملتااس نے معاہدہ لکھتے وقت جودوچارسوروپے کمائے تھے وہ پیشیوں پرخرچ ہوجاتے ہیں اور مزیداپنی جیب سے خرچ کرناپڑتاہے یہ جومحض ایک کیس کی رودادمیں آپکے سامنے پیش کرچکاہوں اس طرح کے ہزاروں کیس تاریخ پہ تاریخ کاانتظارکررہے ہیں وثیقہ نویس کاکام بھی پیشی والے دن رک جاتاہے وہ اپنے بچوں کیلئے رزق کمانے سے بھی محروم رہ جاتاہے ان پیشیوں اورشہادتوں کے چکرمیں اس کاچولہابجھ جاتاہے مگروہ کسی سے یاکسی کے خلاف شکایت کامجازبھی نہیں ۔اب یہ میں آپ پرچھوڑتا ہوں کہ مقدمات میں تاخیرکاذمہ دارکون ہے ؟ عدالتی اہلکار ؟مدعی مقدمہ ؟مدعاعلیہ؟وثیقہ نویس ؟یاوکلا ؟فیصلہ آپ کرلیجئے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket