عقیل یوسفزئی
قبائلی امور اور انڈسٹریز کے نگران صوبائی وزیر ڈاکٹر عامر عبداللہ نے کہا ہے کہ ضم شدہ اضلاع کی تعمیر نو، انفراسٹرکچر اور ترقی کے لئے جو فنڈز ملنے چاہئیں تھے ماضی قریب میں وہ نہیں ملے جبکہ وفاقی، صوبائی حکومتوں نے بھی ان اضلاع پر وہ توجہ نہیں دی جس کی ضرورت تھی تاہم موجودہ نگران صوبائی حکومت محدود مینڈیٹ کے باوجود ان علاقوں کی تعمیر نو اور ترقی پر غیر معمولی توجہ دے رہی ہے. ایک خصوصی انٹرویو میں عامر عبداللہ نے کہا کہ صوبے کو نہ صرف ریکارڈ قرضے بلکہ معاملات چلانے کے لئے درکار فنڈز کی قلت کا بھی سامنا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سابق حکومت نے دو سے ڈھائی لاکھ افراد کی غیر ضروری بھرتیاں کیں. اس وقت حالت یہ ہے کہ صوبے کا آمدن 45 ارب ہے جبکہ صرف تنخواہوں کی مد میں تقریباً 54 ارب روپے درکار ہوتے ہیں جس کو مینیج کرنا ایک مشکل کام ہے. اس کے علاوہ وفاقی حکومت بھی اقتصادی مسائل کے باعث صوبے کے واجبات کی بروقت ادائیگی نہیں کرپارہی. انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا میں جہاں پرانے انڈسٹریل اسٹیٹس کو 24 گھنٹے بجلی فراہمی سمیت دیگر سہولیات دی جارہی ہیں بلکہ صوبے میں 9 مزید انڈسٹریل زونز بھی قائم کئے جارہے ہیں جن میں ڈی آئی خان کا انڈسٹریل زون بھی شامل ہے جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہوگا اور اس سے نہ صرف جنوبی اضلاع بلکہ قبائلی علاقے بھی مستفید ہوں گے. ان کا مزید کہنا تھا کہ جن جن قبائلی علاقوں میں انڈسٹریل زونز کی منظوری اور سہولیات دی گئی ہیں وہاں کے سرمایہ کاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کارخانے شروع کریں ورنہ ان کو رعایتی قیمتوں پر دی جانے والی پلاٹ اور دیگر سہولیات کینسل کردی جائے گی. اس پالیسی کے باعث مہمند، باجوڑ سمیت کئی دیگر علاقوں میں متعدد نئے کارخانے شروع کئے گئے ہیں جن کو حکومت سیکورٹی سمیت تمام سہولتیں فراہم کررہی ہے. عامر عبداللہ کے مطابق حکومت قبایلی علاقوں میں بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے لئے ایک ارب روپے کی لاگت سے ایک اسکالرشپ پروگرام کا آغاز کررہی ہے جس کو مرحلہ وار آگے پھیلایا جائے گا جبکہ نوجوان نسل کو تعلیم اور دیگر تعمیری، تکنیکی سرگرمیوں میں مصروف کرنے کے مختلف پراجیکٹس اور پروگرامز پر بھی تیزی سے کام جاری ہے جس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے. ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی کو عام انتخابات کے بارے میں ابہام نہیں ہونا چاہیے. الیکشن کمیشن نے تاریخ کا اعلان کردیا ہے اور اس کا حکم سپریم کورٹ بھی دے چکی ہے. الیکشن کا انعقاد کمیشن کا کام ہے نگران حکومتیں اس پورے عمل کو سیکورٹی سمیت دیگر تمام درکار سہولیات فراہم کریں گی.
اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق حکومت نے جہاں اپنی بیڈ گورننس اور عدم توجھی کے باعث خیبر پختون خوا پر ریکارڈ قرضہ چڑھایا وہاں قبائلی علاقوں کی تعمیر نو اور انفراسٹرکچر کی بحالی پر بھی کوئی توجہ نہیں دی. اسی کا نتیجہ ہے کہ ان علاقوں کے عوام میں مایوسی پھیل گئی اور بدامنی کا راستہ بھی ہموار ہوا.
نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان علاقوں کی سیکورٹی کے علاوہ ترجیحی بنیادوں پر فنڈز کی فراہمی پر بھی توجہ دینی ہوگی تاکہ ان علاقوں کی پسماندگی اور محرومی دور کرنے میں مدد ملے. اس ضمن میں عامر عبداللہ جیسے وزراء جو عملی کوششیں کررہے ہیں ان کی تجاویز کو نہ صرف عملی بنانے کی اشد ضرورت ہے بلکہ مستقبل میں ان کی پلاننگ اور ڈیزایننگ کو آگے بڑھانے کی بھی کوشش کی جانی چاہیے.