سانحہ 9 مئی ، فوج کی واضح لکیر اور مستقبل کا منظر نامہ
عقیل یوسفزئی
پاکستان کی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف مراحل پر سیاسی جماعتوں اور اتحادوں نے احتجاجی تحاریک چلائی ہیں اور ان تحاریک کی فہرست خاصی لمبی ہے تاہم کسی بھی پارٹی یا اپوزیشن اتحاد نے ملک کے اجتماعی مفادات اور سلامتی کو داؤ پر لگانے کی کوئی پلاننگ اور کوشش نہیں کی ۔ مختلف ادوار میں اہم سیاسی قائدین کو بوجوہ حکومتی کارروائیوں کے دوران قید و بند کے علاوہ متعدد سخت ترین سزاؤں کا نشانہ بنایا گیا تو متعدد اہم لیڈرز کو اقتدار سے محرومی سمیت جلاوطنی کی صورتحال سے بھی دوچار ہونا پڑا مگر کسی بھی اہم لیڈر یا پارٹی نے اپنے کارکنوں کو ریاست پر چڑھ دوڑنے کی ہدایات اور احکامات جاری نہیں کیے ۔ شکایات اور خدشات کو ایک مخصوص جمہوری فریم ورک کے اندر پرامن طریقے سے احتجاج کی صورت میں عوام ، اداروں اور حکمرانوں تک پہنچایا گیا اور شاید اسی جمہوری رویے کا نتیجہ ہے کہ مختلف پارٹیاں مختلف نوعیت کی غیر معمولی تلخیوں اور کشیدگی کے باوجود حالات نارمل ہونے پر بار بار اقتدار میں آتی رہیں اور اس وقت بھی تین سے پانچ تک مختلف وہ پارٹیاں وفاق اور صوبوں میں برسرِ اقتدار ہیں جو کہ ماضی میں مشکلات کی صورتحال سے دوچار رہی ہیں کیونکہ سیاست میں یہ کشمکش جاری رہتی ہے اور یہ سلسلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ میں 9 مئی 2023 کا دن بہت تلخ یادیں رقم کرگیا ہے اور فی الوقت ایسا کوئی امکان نظر نہیں آرہا کہ ریاست اور سیاست میں 9 مئی کے تلخ واقعات اور اس کے اثرات کو نظر انداز یا بھولنے کا کوئی راستہ مل جائے گا ۔ اس خود کو ملک کی مقبول ترین پارٹی قرار دینے والی پاکستان تحریک انصاف نے اپنے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی ہدایات پر احتجاج کی آڑ میں ملک کے تقریباً 22 شہروں میں موجود پاکستان آرمی کے مراکز ، اداروں اور یادگاروں پر منظم پلاننگ کے تحت حملے کئے اور ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ۔ جناح ہاؤس لاہور اور ریڈیو پاکستان پشاور جیسے تاریخی مقامات اور قومی اثاثوں کو نذر آتش کردیا گیا جبکہ شہداء کی یادگاروں اور مجسموں پر کچھ اس انداز میں حملے کیے گئے جیسے یہ دشمنوں کے اثاثے ، یادگاریں یا مجسمے ہو ۔ پاک فوج سمیت تمام متعلقہ اداروں نے اس تمام تر صورت حال کے دوران تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو مزید خراب ہونے نہیں دیا ورنہ کسی ممکنہ تصادم کی صورت میں اگر فورسز واقعتاً حرکت میں آجاتیں تو بہت خون خرابے کا راستہ ہموار ہوجاتا اور ملک میں افراتفری پھیل جاتی ۔ بعد کی تحقیقات سے قدم قدم پر ٹھوس معلومات اور شواہد کی شکل میں ثابت ہوا کہ یہ سب کچھ ایک باقاعدہ پلاننگ کے تحت کیا گیا تھا اور یہ محض ایک اتفاق یا وقتی ردعمل نہیں تھا کہ کارکنوں نے پاک فوج کے مراکز اور اثاثہ جات کو نشانہ بنایا ۔ یہ سب کچھ اہم پارٹی قائدین اور عہدے داروں کی مشاورت ، منظم پلاننگ اور مسلسل ہدایات کی روشنی میں کیا اور کرایا گیا تھا اور اس پوری سازش کے پیچھے سب کچھ نیست و نابود کرتے ہوئے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ اور بارگیننگ کو تشدد کے ذریعے ممکن بنانا تھا ۔ اس خطرناک ترین تجربے کو جب تصادم اور ممکنہ خانہ جنگی سے بچاتے ہوئے ریاست نے تحقیقات اور کارروائیوں کا آغاز کیا تو حملہ آور پارٹی نے معذرت کرنے یا ندامت دکھانے کی بجائے حسب روایت ہٹ دھرمی اور منفی پروپیگنڈا کا راستہ اختیار کرکے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی پالیسی اختیار کرلی ۔ ٹھوس معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ حملوں میں براہ راست ملوث کارکنوں اور عہدیداروں کے خلاف قانون کے تحت مقدمات درج کیے گئے بلکہ اس تمام ” سیاسی گیم ” کے ماسٹر مائنڈز کی جاری کردہ ہدایات اور احکامات کے ثبوت بھی سامنے لائے گئے۔ سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا اور اکثر نے اعتراف جرم بھی کیا تاہم سیاسی دباؤ ، منفی پروپیگنڈا اور دیگر ہتھیاروں کے ذریعے مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے سول تفتیشی سسٹم اور عدالتوں کے کمزور نظام کا سہارا لیکر اپنی یا تو ضمانتیں منظور کروائی گئیں یا رہائی پائی۔
دوسری جانب پاک فوج نے اپنے مخصوص طریقہ کار کے مطابق اپنے افسران اور اہلکاروں کا ادارہ جاتی احتساب کیا اور اس بنیاد پر سخت اندرونی کارروائیاں کیں کہ بعض مقامات پر درکار اقدامات کیوں نہیں کیے گئے ۔ فوجی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جس کو اعلیٰ عدلیہ نے مخصوص حالات کے باوجود غیر موثر کردیا۔
آج 9 مئی کے واقعات کو پورا ایک سال مکمل ہوگیا ہے تاہم یہ بات قابل تشویش ہے کہ اس سانحہ کے ذمہ داران ، ماسٹر مائنڈز اور محرکین کے خلاف عملی اقدامات کے ذریعے موثر سزاؤں کی شکل میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہوسکی ۔ اس تاثر کو تقویت ملتی رہی کہ ریاست یا تو سزائیں دینے میں سنجیدہ نہیں ہے ، یا خوف زدہ ہے ، یا کسی مصلحت سے کام لے رہی ہے ۔ سنجیدہ حلقے سزائیں نہ دینے کے معاملات کو سول اداروں اور نظام کی کمزوریوں اور عدم دلچسپی کا نتیجہ قرار دیتے رہے جبکہ ان حلقوں کی بھی کوئی کمی نہیں جن کا خیال ہے کہ فرسودہ ، سست اور کمزور عدالتی نظام کے باعث 9 مئی کے ذمے داران کو درکار سزائیں نہیں ملیں۔ اسباب و عوامل کچھ بھی ہو ایک تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس ایک برس کے دوران امن پسند سیاسی حلقوں اور عوام میں تشویش بڑھتی دیکھی گئی اور اس ضمن میں یہ سوال بار بار سر اٹھاتا رہا کہ اگر 9 مئی کے ذمے داروں کے ساتھ رعایت برتی گئی تو یہ ملک کی سلامتی کے تناظر میں ایک خطرناک روایت کی صورت اختیار کر جائے گی اور آیندہ کوئی بھی پرتشدد گروپ یا جھتہ اس قسم کا رویہ اپنا کر ریاست پر چڑھ دوڑنے سے گریز نہیں کرے گا۔
اس تمام صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی فوج کا بیانیہ کافی واضح رہا اور اس کی قیادت نے ہر وہ موقف اور طریقہ استعمال کرنے کی کوشش کی جس کے ذریعے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شرپسندوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا تھا تاہم سول اداروں اور سیاسی قائدین نے وہ دلچسپی اور کارکردگی نہیں دکھائی جس کی ضرورت تھی یا ضرورت ہے۔
9 مئی کے واقعات کے ایک سال مکمل ہونے کی مناسبت سے 8 مئی 2024 کو ڈایریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے ایک تفصیلی پریس بریفنگ کے ذریعے درکار ڈیٹا ، تفصیلات اور پس پردہ محرکات پر روشنی ڈالی اور بہت واضح انداز میں موقف اختیار کیا کہ ملوث آفراد اور ان کے ماسٹر مائنڈز کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی ۔ ان کے مطابق 9 مئی کو فوجی اور قومی املاک پر حملوں کے باقاعدہ اہداف دیے گئے تھے اور یہ محض پاک فوج کا نہیں بلکہ پوری قوم اور ملک کا مقدمہ اور مسئلہ ہے ۔ ان کے مطابق ایک جھوٹے پروپگنڈے اور بیانیہ کے ذریعے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی حقائق کو مسخ کرکے اظہار رائے کی آڑ میں ریاست اور سیکورٹی فورسز کے خلاف منفی پروپیگنڈا کے عمل کی اجازت دی جائے گی ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ امریکہ اور فرانس میں جب اس قسم کے واقعات سامنے آئے تو وہاں اہم شخصیات سمیت ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دی گئیں اور پاکستان کی ریاست بھی 9 مئی کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائیاں کرے گی ۔ ان کے بقول اگر کسی کو کوئی شک و شبہ ہے تو اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔
سیاسی ماہرین نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس تفصیلی بریفنگ اور دوٹوک موقف کو پاکستان کی طاقتور اور منظم فوج کی جانب سے 9 مئی کے واقعات میں ملوث مخصوص پارٹی کے لیے ایک واضح لکیر کھینچنے کا رویہ سمجھ کر یہ تاثر قائم کیا کہ مخصوص پارٹی کے ساتھ اس معاملے پر مزید کسی رعایت کو عسکری قیادت نے خارج از امکان قرار دیا ہے اور یہ کہ اس تناظر میں آیندہ کچھ عرصے کے دوران بہت کچھ ہونے والا ہے۔ ماہرین کے مطابق مذکورہ مخصوص پارٹی کے گرد گھیرا تنگ ہونے والا ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ اس تناظر میں وفاقی کابینہ کا ایک اہم اجلاس 9 مئی کے روز اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے۔
اس تمام صورتحال اور مستقبل کے متوقع منظر نامے پر مختلف تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں نے جو تاثرات بیان کئے وہ کچھ یوں ہیں۔
1 : انیق ناجی ( معروف اینکر پرسن )
9 مئی کے واقعات پاکستان کے عوام ، سیاسی قائدین اور ادارے بھول نہیں پائیں گے ۔ چونکہ ان حملوں میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منظم پلاننگ کے تحت پاکستان کی فوج کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے شہداء کی توہین کی گئی اس لیے عسکری قیادت کے لیے اس کے ذمہ داران کو کوئی رعایت دینا ممکن نظر نہیں آتا اور لگ یہ رہا ہے کہ تحریک انصاف نامی پارٹی کی بہت سی خوش فہمیاں جلد ختم ہونے کو ہے ۔ تحریک انصاف کسی پارٹی یا نظریہ یا سیاسی پارٹی کی بجائے ایک دیوانگی ، کیفیت اور غیر سنجیدگی کا نام ہے اس لیے اس پارٹی کی قیادت سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ 9 مئی کے واقعات کو سیاسی دباؤ یا منفی پروپیگنڈا کے ذریعے نہ تو دبایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ذمہ داران کو معاف کرنا ممکن ہے ۔
2 : ثمر ہارون بلور ( رہنما اے این پی)
یہ پاکستان پر حملہ تھا اور اس کے ذمہ داران کو قانون کے تحت سخت سزائیں دینی چاہیے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں نہ صرف لوگوں کا قانون پر سے اعتماد اٹھ جائے گا بلکہ دوسرے بھی یہی راستہ اختیار کریں گے تاہم اس کے لیے لازمی ہے کہ دوسرے فریق کو بھی شفاف ٹرائل کے ذریعے اپنے دفاع کا حق حاصل ہو تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں ۔
3 : احمد منصور ( سینیر صحافی)
9 مئی کے واقعات کو بھلانا ممکن نہیں ہے اور تحریک انصاف کو ڈی جی آئی ایس پی آر کے دوٹوک موقف کے بعد مزید کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے ۔ لگ یہ رہا ہے کہ اس پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف گھیرا تنگ ہونے والاہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت بھی معذرت یا معافی کی بجائے الزامات پر مبنی اپنی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے نہ صرف اداروں کے خلاف منفی مہم چلارہی ہے بلکہ عوام کو مزید گمراہ کرنے کی پالیسی پر بھی گامزن ہے اور اس رویے کے اس پارٹی کو بہت سخت نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
4 : ڈاکٹر عباد خان ( اپوزیشن لیڈر کے پی اسمبلی)
قوم ، پُرامن سیاسی جماعتیں اور اہم ریاستی قوتیں 9 مئی اور اس کے بعد کے واقعات اور تحریک انصاف کی ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسی کو نہ تو معاف کریں گی اور نہ ہی ذمہ داران کے ساتھ مزید کوئی رعایت برتنی چاہیے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو نشان عبرت بنادیا جائے ۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے جو لیڈر 9 مئی کے واقعات میں ملوث رہے وہ بوجوہ آج اس صوبے کے حکمران بنے بیٹھے ہیں اور ان کے رویہ میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی ہے۔
5 : علی اکبر خان ( صحافی)
9 مئی کے شفاف اور تیز ترین تحقیقات کی اشد ضرورت ہے ۔ گزشتہ ایک سال کے عرصے میں اس ضمن میں کوئی اہم پیشرفت نہیں ہوئی ہے جس کے باعث مختلف قسم کی شکوک وشبہات جنم لیتے رہے ہیں ۔ وفاقی حکومتوں اور سول اداروں کی عدم دلچسپی اور نااہلی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے ایک سال گزرنے کے باوجود ریڈیو پاکستان پشاور کی جلائی گئی عمارت کی تعمیر نو کو بھی ممکن نہیں بنایا ۔ اب محسوس یہ ہورہا ہے کہ شاید عسکری قیادت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے اور مستقبل قریب میں بہت کچھ ہونے والا ہے۔