ڈس انفارمیشن کی سیاست

پی ٹی آئی کی ایک گمنام جماعت سے مقبول سیاسی جماعت بننے میں ڈس انفارمیشن یعنی جھوٹی اطلاعات کا خاصا عمل دخل ہے۔ بانی سمیت دیگر قائدین دھڑلے سے کسی جھوٹی بات پر اَڑ جاتے ہیں اور قلیل عرصے میں ان کا مؤقف غلط ثابت ہو جاتا ہے، مگر وہ ایک اور شُرلی چھوڑ کر پرانی سے توجہ ہٹانے میں کامیاب رہتے ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی 8 ستمبر سنجانی جلسے کے بعد نو گھنٹے تک غائب رہنے پر اکثر رہنماؤں نے گرفتاری بلکہ “اغوا” کا واویلا مچایا۔ پی ٹی آئی میں مدبر سمجھے جانے والے (جو ظاہر ہے اسی پارٹی کے مدبر ہو سکتے ہیں) اسد قیصر نے فوری طور پر ان کے اغوا کا اعلان کرکے ارشاد فرمایا کہ “عوام میں ان کے محبوب وزیراعلیٰ کے اغوا پر غم و غصے کی لہر دوڑ چکی ہے، ایسا نہ ہو کہ عوام ظلم کی زنجیریں توڑ کر انقلاب برپا کر دیں، جس میں حکمران اور ان کے سرپرست خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔”

ان کی بیک وقت ماؤ زے تنگ اور لینن سے متاثرہ گفتگو کے دو چار گھنٹے بعد ہی وزیراعلیٰ نمودار ہوئے اور اعلان فرمایا کہ “وہ تو خود چل کر امن و امان کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں تشریف لے گئے تھے، اس میٹنگ والے مقام پر جیمرز لگے ہوئے تھے اس لیے ان کے موبائلز آف مل رہے تھے۔”

8 اور 9 ستمبر کی رات نو گھنٹے تک پی ٹی آئی کے پیڈ اور رضاکار سوشل میڈیا ڈیجیٹل دہشت گردوں نے وہ اودھم مچائے رکھا جس سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ مگر یہ ڈس انفارمیشن ثابت ہونے پر کسی بندۂ خدا کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے ملفوظات پر معافی کا خواستگار ہو۔

سوشل میڈیا کے ورکرز تو چلیں نابالغ ہیں، بے وقوف ہیں، یوتھیے ہیں یا عمرانڈوز ہیں مگر بڑے بڑے ریاستی اور انتظامی عہدوں پر کام کرنے والے تین تین مرتبہ ایم پی اے، ایم این اے اور سینیٹرز بننے والے مدبر اور دانشور رہنماؤں نے بھی اس جھوٹی اطلاع کی دل و جان سے ترویج کی اور اپنی توانائیاں اس ڈس انفارمیشن کے لیے ایسے خرچ کیں جیسے ان کی سو سالہ سیاسی جدوجہد کا نچوڑ گنڈاپور کا اغوا اور اس پر واویلا مچانا ہو۔

پھر اس ڈس انفارمیشن کی بنیاد پر ایسے ایسے اقوالِ زریں وجود میں آئے جس سے شاید افلاطون، ارسطو، ماؤ زے تنگ، چی گویرا وغیرہ بھی ناواقف ہوں۔ ماضی میں اس جماعت کے سربراہ سمیت دیگر قائدین، ہولناک، المناک، دردناک، نمناک اور غمناک انکشافات فرما چکے ہیں۔

وزیر خزانہ شوکت ترین عہدہ سنبھالنے سے محض ایک ہفتہ قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں ارشاد فرما چکے تھے کہ عمران حکومت نے ملکی معیشت کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ اب ڈیفالٹ کے سوا چارہ نہیں۔ مگر ذمہ داریاں سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد انہوں نے فرمایا کہ معیشت ٹیک آف کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ جس کے ڈھنڈورے پیٹے گئے، وزیراعظم بھی معاشی کارکردگی کی تعریفوں میں رطب اللسان رہے۔ اور اس ڈس انفارمیشن کی ترویج کی گئی کہ ملکی معیشت تاریخ کے بہترین دور سے گزر رہی ہے۔

اقتدار سے رخصتی کو بھانپتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی “تاشقند کا راز کھول دوں گا” کی بھونڈی نقالی کرتے ہوئے بھرے جلسے میں جیب سے ایک خط نکال کر لہرایا گیا۔ اس حوالے سے ان کے دعوے کی کہیں سے تصدیق نہ ہو سکی، اس کے باوجود سائفر کا ایک ڈرامہ اب بھی وہ سچ سمجھ رہے ہیں۔

علی امین گنڈاپور کی دوسری بار تیس گھنٹے تک غائب رہنے پر پارٹی کے مدبر رہنما اور متوقع طور پر چیئرمین کے امیدوار اسد قیصر ایک بار پھر خم ٹھونک کر سامنے آئے اور اس دفعہ کچھ نئے دعوے کیے، کچھ نئے شگوفے چھوڑے اور نت نئی دھمکیوں سمیت حسب سابق لگے ہاتھوں جمہوری اداروں کی بالادستی پر چند اقوال زریں بھی ارشاد فرما دیے، حالانکہ وہ بطورِ اسپیکر کسی منتخب نمائندے کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے قاصر رہے۔

مگر علی امین گنڈاپور سامنے آئے اور ان کے دعوؤں کی نفی ہو گئی، مگر حرام ہو کہ انہوں نے ایک لفظ بھی ارشاد فرمایا ہو کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی، اگر میرے زہریلے الفاظ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت کا طلبگار ہوں۔

رواں ماہ کی پانچ تاریخ کو اسلام آباد میں پرتشدد احتجاج کے پیش نظر حکومت نے ہفتے عشرے کے لیے عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی جس پر نامعلوم مقام سے ٹویٹ کرتے ہوئے مراد سعید نے فرمایا کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کی صحت ٹھیک نہیں اور انہیں قتل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

ان کی صحت کے حوالے سے ان گنت افواہیں گرم کی گئیں۔ حالانکہ دو دن قبل ان کے ساتھ ملاقاتیں ہوئی تھیں تو وہ بالکل صحتمند تھے۔ جب ملاقاتوں پر پابندی عائد کی گئی اور ان کا باہر کی دنیا سے رابطہ ممکن نہ رہا تو نامعلوم مقام پر بیٹھے انقلاب کے ایک اور خودساختہ داعی مراد سعید کے ذرائع اتنے طاقتور ہیں کہ انہیں عمران خان کی حالت زار کا علم ہوا۔

اسی طرح ایک اور نوٹنکی انقلابی شہباز گِل کو بھی یہی الہام ہوا کہ عمران خان تو بس جانکنی کی حالت میں ہیں یا پھر خدانخواستہ کوچ کر چکے ہیں۔

مراد سعید کے حوالے سے بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ گزشتہ یا اس سے پیوستہ ماہ خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی قرارداد منظور کر چکی ہے کہ مراد سعید کو منظرعام پر لایا جائے۔ یہ قرارداد بالکل ویسی ہی ہے جیسے اسد قیصر کا علی امین گنڈاپور کو رہا کرانے کا مطالبہ، جو گرفتار ہی نہیں ہوئے تھے۔

مراد سعید کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کہاں روپوش ہیں۔ کبھی اطلاع آتی ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں ہیں تو کبھی افغانستان میں ان کی روپوشی کی افواہ سامنے آ جاتی ہے۔ بہرحال وہ جہاں بھی ہیں اپنی مرضی اور سہولت سے ہیں۔ اگر وہ افغانستان میں ہیں تو یہ ملک دشمنی ہے، مبینہ طور پر وہ کالعدم ٹی ٹی پی کی پناہ میں ہیں، جو ان کی ملک دشمنی کا کھلا ثبوت ہے۔

ریاست پاکستان کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی کسی تنظیم کے پاس ان کی موجودگی معنی خیز اور غیر معمولی ہے۔ طالبان کی مہمان نوازی سے لطف اندوزی کے دوران انہیں الہام ہوا ہے کہ عمران خان کی حالت بہت خراب ہے۔ اس سے ان کا مقصد صرف انارکی اور انتشار پھیلانا ہے۔ اور انتشار یقیناً جھوٹی اطلاعات سے پھیلتا ہے۔

لاہور کے ایک کالج میں لڑکی سے گینگ ریپ کی جھوٹی افواہ سے خاصا نقصان ہو چکا ہے۔ پشتو کا مقولہ ہے کہ “چہ رشتیارازی نو دروغو کلی وران کڑے وی” یعنی سچ سامنے آنے تک جھوٹ بستیاں اجاڑ دیتا ہے۔ اور یہ نام نہاد انقلابی بھی ملک اجاڑنے کے لیے کوشاں ہیں۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket