جمہوریت اورآمرانہ روئیے

دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت قائم ہے وہاں سیاسی جماعتوں کا وجود بھی لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لیے نرسری کا کام کرتی ہیں۔ یہ ایک جانب تو عوامی مسائل کے حل کے لیے قابلِ عمل پروگرام پیش کرتی ہیں تو دوسری جانب ملک کو نئی قیادت فراہم کرنے کا کام بھی انجام دیتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں یہ تمام فرائض اس وقت تک انجام دیتی رہتی ہیں جب تک یہ کسی آمر کے زیرِ اثر نہ آجائیں۔ بعض اوقات سیاسی جماعتیں خود کو برضا و رغبت کسی آمر کا تابع فرمان بنا دیتی ہیں جبکہ بسا اوقات سیاسی جماعتوں کے رہنما آمر کا روپ دھار لیتے ہیں۔

وطن عزیز میں ہمہ قسم کی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو مذہب، قومیت، لسانیت، وفاقیت اور صوبائیت کے نام پر سیاست میں خود کو زندہ رکھی ہوئی ہیں۔ ان تمام میں تحریک انصاف نامی ایک جماعت انقلاب کی داعی بن کر ابھری۔ شروع میں اگرچہ اس جماعت کے نعرے کو کوئی خاص مقبولیت نہ مل سکی مگر 2011ء کے بعد یہ جماعت عوام میں مقبول ہوتی گئی یہاں تک کہ 2018ء میں اسے اقتدار تک رسائی مل گئی۔ اس جماعت نے انتخابات میں اگرچہ ایسے وعدے کیے تھے جن کا پورا ہونا ممکن نہ تھا، مگر اس کے باوجود عوام کو اس سے امیدیں وابستہ تھیں کہ شاید یہ جماعت ان کے دکھوں کا مداوا کرنے میں کامیاب ہو۔ مگر عمران خان کی طرزِ حکومت نے مختصر وقت میں یہ ثابت کر دیا کہ اس جماعت کے پاس محض دلفریب نعرے، جھوٹے دعوے اور خوشنما وعدے موجود ہیں۔ عملی میدان میں اس کا دامن خالی نظر آ رہا ہے۔

قریب تھا کہ یہ جماعت ملک کو دیوالیہ پن سے دوچار کر دیتی کہ دیگر جماعتوں نے اس سے ایک خالص آئینی طریقے سے اقتدار چھین لیا۔ اگر جماعت کے سربراہ آمر بن کر نہ ابھرتے اور جمہوری طور طریقے اپناتے تو عین ممکن تھا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش نہ ہوتی۔ مگر انہوں نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے کئی غیر آئینی چالیں چلیں جو ناکامی سے دوچار ہوئیں، جس کے بعد جھوٹے بیانیوں اور دعوؤں کا ایک طوفان برپا کر دیا گیا جس کا مقصد کسی نہ کسی طرح کھوئے ہوئے اقتدار کا دوبارہ حصول تھا۔

سیاسی جماعت کے لیے اقتدار کے حصول کی کوششیں معیوب امر نہیں، لیکن یہ کوششیں جمہوری ہوں جبکہ تحریک انصاف کی قیادت نے جمہوریت کو خیرباد کہہ کر آمرانہ رویے اپنائے۔ جس سے انہیں اقتدار تک رسائی کیا ملتی، الٹا یہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچنے پر مجبور ہو گئے۔ اگر عمران خان اپنی حکومت کی رخصتی پر قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے نہ دیتے اور ایوان کے اندر رہتے ہوئے اپنا متعین کردہ کردار ادا کرتے رہتے تو یقیناً حکومت کو نہ صرف ٹف ٹائم دے سکتے تھے بلکہ حکومت چلانا مشکل بنا سکتے تھے۔ مگر انہوں نے جمہوری اور آئینی کردار ادا کرنے کی بجائے آمرانہ رویے اپنائے۔

پہلے قومی اسمبلی سے تمام ارکان کے استعفے دلوائے۔ اس کے بعد دو صوبوں میں ان کی اچھی بھلی حکومتیں قائم تھیں جنہیں وفاق یا کسی جانب سے کوئی خطرہ نہیں تھا، انہیں واحد خطرہ عمران خان سے تھا اور وہ واقعی ان چلتی ہوئی حکومتوں کے لیے خطرناک ثابت ہوئے۔ انہوں نے یہ دونوں حکومتیں توڑ دیں اور بعد میں ان دونوں صوبوں میں انتخابات کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے جہاں سے اگرچہ ریلیف تو مل گیا، مگر اس وقت کے معروضی حالات کے پیش نظر انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکا۔

اگر وہ یہ دونوں حکومتیں نہ توڑتے تو وفاقی حکومت بقول ان کے محض 26 کلومیٹر تک محدود رہ گئی تھی، جس کا چلنا انتہائی مشکل تھا۔ مگر انہوں نے دونوں حکومتیں توڑ کر ایک تو مقتدرہ کو تخریب کاری کا پیغام دیا، دوسرے وفاق ان دونوں صوبوں میں مخالف کی بجائے حامی حکومتیں بنوانے میں کامیاب رہا اور اس کامیابی میں عمران خان کی ناکامی پنہاں تھی۔ وہ چونکہ خود کو ہٹلر، مسولینی یا اس قسم کی کوئی توپ چیز سمجھ رہے تھے، اس لیے نہ تو کسی کی معقول بات سننا گوارا کی اور نہ ہی ان میں خود کوئی معقول فیصلہ کرنے کی صلاحیت تھی۔

پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد یقیناً ان کی ذہنی ساخت خاصی متاثر ہوئی جس کے زیرِ اثر انہوں نے 9 مئی 2023ء کو قومی، ملکی، فوجی تنصیبات اور نجی املاک پر حملوں کا حکم دیا۔ اس آمرانہ رویے کا نتیجہ ہے کہ آج وہ خود بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، جبکہ بہت سے رہنما اور کارکن بھی یہی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

حال ہی میں انہیں ایک گولڈن چانس ملا تھا جب وفاقی حکومت آئینی ترامیم کا ایک پیکیج منظور کروانے کے لیے متحرک ہوئی۔ وفاقی حکومت اگر چاہتی تو یہ ترامیم باآسانی منظور کروا سکتی تھی، مگر چونکہ سیاست کی عمارت ہی کچھ لو اور دو کے آفاقی اصولوں پر ایستادہ رہتی ہے، اس لیے حکومت نے مولانا فضل الرحمان کو ساتھ لے کر ترامیم کرنا ضروری سمجھا۔

مولانا چونکہ گزشتہ فروری کے انتخابات سے تحریک انصاف کے زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں اگرچہ وہ قریب نہیں ہیں کیونکہ ان کی اور پی ٹی آئی کی نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مگر مولانا گزشتہ عام انتخابات سے سمجھ چکے ہیں کہ تحریک انصاف اس ملک خصوصاً خیبرپختونخوا کی ایک قابلِ ذکر سیاسی قوت ہے اور اس قوت نے ان سے سیاسی گراؤنڈ چھین لیا ہے۔ اس لیے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے مولانا جو عمران خان کو پاکستانی سیاست کا غیر ضروری عنصر قرار دیتے تھے، ان کی جماعت کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کر دیں۔

حکومتی ترامیم کا مسودہ سامنے آنے پر انہوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر ایک نیا مسودہ تیار کر لیا، جو اگرچہ حکومتی مسودے کے قریب تھا مگر تحریک انصاف نے اس کی تیاری میں حصہ دار ہونے کے باوجود اسے مسترد کر دیا۔ مولانا نے تحریک انصاف کو قومی دھارے میں لانے کی بہتیری کوششیں کیں مگر عمران خان کی انا کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی۔ انہوں نے عمران خان اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔

پارٹی کا ایک باشعور حلقہ جس کا معترف ہے اور اس کی خواہش ہے کہ جلاؤ، گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور تشدد سے پارٹی مزید نقصان سے دوچار ہو گی، اس لیے حکومت سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چند رعایات حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر عمران خان چونکہ سمجھتے تھے کہ جسٹس منصور علی شاہ جیسے ہی چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے، وہ حکومت کو رخصت کر کے انتخابات کا اعلان کریں گے اور اس کے نتیجے وہ برسرِ اقتدار آ کر ملکی نیا ڈبونے کی وہ کوششیں جاری رکھیں گے جو عدم اعتماد کے سبب ادھوری رہ گئی تھیں۔

جمہوریت میں ان آمرانہ رویوں نے نہ صرف ان کی پارٹی کو کئی حصوں میں بانٹ دیا ہے، بلکہ جسٹس منصور علی شاہ سے بھی ان کا متوقع منصب چھیننے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket