گورنر کنڈی کا بشریٰ بی بی ، وزیر اعلیٰ پر طنز

عمران خان صاحب کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے نہ صرف یہ کہ سی ایم ہائوس پشاور میں ڈیرے ڈال دئیے ہیں بلکہ عدالت نے ان کو راہداری ضمانت سے بھی نوازا ہے ۔ جن اخلاقیات یا اصولوں کی پی ٹی آئی دعوے کرتے ہوئے دوسروں پر طنز کرتی رہی ہے ان کو سامنے رکھتے ہوئے اس پارٹی پر لاگو کیا جائے تو سی ایم ہائوس میں موصوفہ کے قیام کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ یہ رولز آف بزنس کی کھلی خلاف ورزی ہے تاہم اس پارٹی کے لیے ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ پارٹی نہ صرف یہ کہ توڑ پھوڑ کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے بلکہ عمران خان کی اہلیہ اور بہنوں کے درمیان بھی ” زبردست” قسم کی کھینچا تانی اور لابنگ جاری ہے ۔ صوبے میں پارٹی 4 گروپوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے اور بشریٰ بی بی کی تشریف آوری کے بعد عجیب وغریب قسم کی افواہیں زیر گردش ہیں ۔ غالباً اسی اندرونی معاملات اور اختلافات سے توجہ ہٹانے کے لیے خیبرپختونخوا کے دبنگ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک بار پھر عمران خان کی ” جیل مینو ” کے بہانے گزشتہ روز ایک ویڈیو پیغام میں پھر سے دھمکی دی ہے کہ اگر سابق وزیراعظم کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا گیا تو وہ اسلام آباد پر چڑھائی کردیں گے اور حکمرانوں کو بھاگنے کا موقع بھی نہیں ملے گا ۔ اس بات سے قطع نظر رولز آف بزنس اور اخلاقیات کے تناظر میں بشریٰ بی بی اور متعدد دیگر پی ٹی آئی رہنما ء صوبائی حکومت کے وسائل کیونکر استعمال کرسکتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بشریٰ بی بی واقعتا غیر سیاسی ہیں تو صوبائی حکومت سے متعلق یہ تاثر کیوں ہے کہ موصوفہ باقاعدہ حکومتی اور پارٹی امور میں مداخلت کرنے لگی ہیں ؟ اگر یہ تاثر یا اطلاعات غلط ہیں تو سی ایم ہائوس یا محکمہ اطلاعات میڈیا کے لیے ایک خصوصی بریفنگ کا اہتمام کرنے سے گریزاں کیوں ہیں کیونکہ وزیر مشیر اطلاعات سمیت دیگر تمام میڈیا کا سامنا کرنے کی بجائے ویڈیو پیغامات پر انحصار کرتے آرہے ہیں ۔ دوسری جانب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر بشریٰ بی بی سیاست میں حصہ لینا چاہتی ہیں تو کھل کر سامنے آجائیں ۔ گورنر نے یہ مشورہ کیوں دیا ہے اس کا ضرور کوئی پس منظر ہوگا تاہم اس کا کیا کیا جائے کہ جب بشری ٰبی بی نے پشاورمیں ” لینڈنگ” کی تو گورنر صاحب اسلام آباد اور پنجاب کے لمبے سفر پرچلے گئے اور باہر بیٹھ کر بیانات دیتے رہے ۔ گورنر نے مشورہ دیا ہے یا طنز کیا ہے اس سے قطع نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے حالات کا ادراک کرتے ہوئے گورننس کے معاملات پر توجہ مرکوز کی جائے اور حالت جنگ سے دوچار صوبے کے عوام کے زخموں پر دھمکیوں اور بیانات کے ذریعے نمک پاشی کے رویوں سے گریز کیا جائے ۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket