کرکٹ اور ہندو انتہاپسندی

متمدن دنیامیں کھیلوں کوصحتمندسرگرمیوں کاحصہ سمجھاجاتاہے۔ یہ مقولہ توسب کوازبرہے کہ جس ملک کے پلے گراؤنڈزآبادہوتے ہیں وہاں کے ہسپتال ویران رہتے ہیں۔ برصغیرپاک و ہند میں کرکٹ کے کھیل کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔ یہاں کے گلی کوچوں، گھروں اور گیرا جوں میں لوگ کرکٹ کھیلتے اور میچ دیکھتے نظر آتے ہیں۔ اس کھیل میں پاکستان اور بھارت کو روایتی حریفوں کے طور پر لیاجاتاہے۔

چونکہ پاکستان کو ہندو انتہاپسند قیادت نے دل سے تسلیم نہیں کیا اور پون صدی گزر جانے کے باوجود ہندو انتہاپسندوں کا خیال ہے کہ پاکستان اکھنڈ بھارت کا حصہ ہے۔ دونوں ممالک کے لوگ کھیلوں کے شیدائی ہیں، مگر کرکٹ کو یہاں جنون کی حد تک پذیرائی حاصل ہے۔ پاکستان میں کرکٹ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ یہاں ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان کو وزارت عظمیٰ تک پہنچایا گیا، حالاں کہ ان میں اس عہدے کی اہلیت نہ ہونے کے برابر تھی۔

بھارت میں بھی کرکٹ کے کھلاڑی اعلیٰ مناصب حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یعنی دونوں ممالک میں نہ صرف کرکٹ کو جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے بلکہ اچھی کارکردگی دکھانے پر کھلاڑیوں کو اعلیٰ مناصب اور اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ لوگ کرکٹ کھلاڑیوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، ان سے آٹوگراف لیتے ہیں اور سیلفیاں بناتے ہیں۔

کرکٹ کی اس پسندیدگی کے باعث دونوں ممالک کے درمیان میچ کی اہمیت دوگنی ہوجاتی ہے اور شائقین کا انہماک انتہا کو چھو رہاہوتا ہے۔ اس ایک میچ سے اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے اور یہ میچ نشریاتی اداروں، آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز کے لیے بہت زیادہ منافع بخش ثابت ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک میچ میں اعلیٰ کاکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑی لمحوں میں ہیرو بن جاتے ہیں۔

مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے بھارت نے پاکستان کا اعلانیہ بائیکاٹ کررکھا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کا کردار ذمہ دارانہ رہا ہے اور اس کے ہر دور کی قیادت دونوں ممالک کے درمیان میچز منعقد کرنے کی حامی رہی ہے۔ مگر بھارت سدا کا بغض کھیل میں بھی لے آیا ہے۔ کھیل جو نفرتوں کو مٹاتے ہیں، کھلاڑی جو محبتیں بانٹتے ہیں، ہندو انتہاپسندوں نے اس کھیل اور کھلاڑیوں کو بھی نفرتوں کے لیے استعمال کیا۔

جب دنیا جہاں کی ٹیمیں پاکستان آ کر کھیلتی ہیں اور انہیں یہاں کوئی مسئلہ نہیں، تو بھارت کو کیا تکلیف ہوسکتی ہے؟ یہاں کے لوگ بھارتی کھلاڑیوں سے محبت کرتے ہیں اور انہیں اپنے گراؤنڈز پر کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پھر بھارت کی جانب سے ٹیم نہ بھیجنے کی کوئی معقول وجہ بھی موجود نہیں۔

دونوں ممالک کے تعلقات معمول کے مطابق نہیں اور ان میں ہمہ وقت کشیدگی کا نمایاں عنصر موجود رہتا ہے جس کی ذمہ داری بھی بھارت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ایک تو اس نے روز اول سے ہی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، دوسرے اس سے پاکستان کی کوئی کامیابی برداشت نہیں ہوتی۔ مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر انگنت تنازعات بھارت ہی کے پیدا کردہ ہیں۔

مقبوضہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کے ایجنڈے کا نامکمل حصہ ہے جس پر بھارت نے بزور بازو قبضہ جما رکھا ہے اور غیرقانونی و غیراخلاقی طور پر اسے اپنے اندر ضم بھی کر لیا ہے۔ بھارتی زیادتیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی ہر سطح پر پاکستان کو بائیکاٹ کرنا چاہئے تھا، مگر پاکستان کھیل اور سیاست کو الگ الگ نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔

اس لئے بھارت میں کوئی بین الاقوامی ٹورنامنٹ ہورہاہو یا کوئی کانفرنس، پاکستان نے کبھی اس کے بائیکاٹ جیسا بچگانہ فیصلہ نہیں کیا۔ مگر بھارت سارک کانفرنس میں شرکت سے بھی گریزاں ہے اور پاکستان میں کسی بین الاقوامی ٹورنامنٹ کا انعقاد ہو تو خدشہ رہتا ہے کہ بھارت اپنی ٹیم نہیں بھیجے گا۔

گزشتہ برس پاکستان میں شیڈول ایشیاکپ میں بھی بھارت نے اپنی ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کا فضول فیصلہ کیا جس پر آئی سی سی کو ہائبرڈ فارمولہ دینا پڑا۔ اب آئندہ برس پاکستان میں آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی کا انعقاد ہونا ہے جس کیلئے پاکستان نے تمام انتظامات مکمل کر لئے ہیں اور دیگر ممالک سمیت آئی سی سی نے بھی ان انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

مگر عین وقت پر بھارت کی جانب سے ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کا غیرذمہ دارانہ فیصلہ سامنے آیا جس سے شائقین کرکٹ کو مایوسی ہوئی۔ ساتھ ساتھ نشریاتی اور دیگر ادارے بھی محوئے حیرت ہیں۔ چیمپئینز ٹرافی جسے منی ورلڈکپ بھی کہاجاتاہے، اس بڑے ٹورنامنٹ کی میزبانی پاکستان کو ملنے پر بھارت سیخ پا ہے۔

پاکستان سے میزبانی چھیننے میں ناکامی پر بھارت نے ایک بار پھر روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جو قابل مذمت فعل ہے۔ دنیا کو دہشت گردی سپلائی کرنے والا ملک بھارت، پاکستان کو غیرمحفوظ ملک قرار دینے پر تلا ہوا ہے جس میں اسے ہمیشہ کی طرح ناکامی کا سامنا ہے۔

کیونکہ دنیا اب جان چکی ہے کہ پاکستان دہشت گرد ملک نہیں بلکہ خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس میں بھارتی ہاتھ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ بھارت دنیا میں دہشت گردی پھیلانے میں ملوث رہا ہے۔ کینیڈا کے ساتھ اس کے تعلقات اسی سبب تناؤ کا شکار چلے آرہے ہیں۔

اس کی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی “را” کے اہلکار سفارتکاروں کی روپ میں دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہیں جو سکھ کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث پائے گئے ہیں۔ امریکہ میں بھی اس کے ہرکارے اسی قسم کی واردات کرچکے ہیں۔ کینیڈا کے ہاتھوں اپنی ہزیمت چھپانے کیلئے بھارت نے آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی میں ٹیم نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھارت کے حوالے سے کوئی ہائبرڈ فارمولہ قبول کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ پاکستان کو بھارت کی بجائے کوئی دوسری ٹیم شامل کروانے کیلئے کوشش کرنی کی ضرورت ہے۔ اس سے ایک تو بھارت کی عالمی رینکنگ پر اثر پڑے گا، دوسرا اسے بین الاقوامی طور پر ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بہترین طرز عمل تو یہ ہوتا کہ بھارت اپنی ٹیم پاکستان بھیج کر کشیدگی میں کمی اور تعلقات معمول پر لانے کے اقدامات کرتا۔ مگر جیسا کہ ہندو انتہاپسندی سے بھارت کے اندر مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو خطرہ ہے، اسی طرح ہندو انتہاپسندی سے برصغیر میں کرکٹ کو بھی سنگین خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ جس کی تدارک کیلئے آئی سی سی کو نظر آنے والے اقدامات لینے ہوں گے تاکہ کرکٹ کا کھیل پھلتا پھولتا رہے اور یہ ہندو انتہاپسندی کے شر سے محفوظ رہے۔

وصا ل محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket