تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھراسلام آبادمیں احتجاج کااعلان کیاہے۔بانی پی ٹی آئی سے انکی ہمشیرہ علیمہ خان نے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہرصحافیوں سے گفتگومیں کہاکہ عمران خان نے فائنل کال دے دی ہے اور 24 نومبرکوپورے ملک میں احتجاج کیاجائیگا۔ جب سے عمران خان کی اقتدارکے کوچے سے بے آبروہوکررخصتی عمل میں آئی ہے تب سے یہ جماعت احتجاج پرہے یوں اس احتجاج کوتقریباًاڑھائی برس کاعرصہ بیت چکاہے مگراحتجاج ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔

آج امریکی سازش کے خلاف احتجاج کی کال دی جارہی ہے توکل حکومت کے خلاف احتجاج کاپروگرام بن رہاہے۔ان بے مقصداحتجاجوں کوروزاول سے ہی ناکامی کاسامناہے کیونکہ اس کیلئے کوئی بنیادموجودنہیں۔ درحقیقت سیاسی حیثیت کوذاتی مفادکیلئے استعمال کرنے کانام انقلاب اورحقیقی آزادی رکھ لیاگیاہے جس کا مقصدیاتوذاتی فوائدہیں یاپھردورانِ حکومت لوٹاگیاپیسہ بچانے کیلئے قوم کے بچوں کوبے جااوربے مقصداحتجاجوں کاایندھن بناناہے۔

احتجاج کیلئے جومطالبات پیش کئے گئے ہیں ان میں سے ایک بھی ایسانہیں جس پریہ جماعت دورِاقتدارمیں عمل پیرارہی ہو۔سرفہرست مطالبہ 26 ویں آئینی ترمیم کی واپسی کاہے جوایک سیاسی اورپارلیمانی جماعت کیلئے مضحکہ خیزہے۔ آئین میں ترامیم قومی اسمبلی اورسینیٹ سے دوتہائی اکثریت کیساتھ منظورہوچکی ہیں اورجوقانون سازی کی گئی ہے اس پرعملدرآمدکاآغازبھی ہوچکاہے۔ چیف جسٹس سمیت اہم تقرریاں عمل میں آچکی ہیں۔ ان ترامیم پرپی ٹی آئی بھی رضامندتھی جس کااظہارمولانافضل الرحمان نے پارٹی چیئرمین گوہرخان کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔

قانون سازی یاآئینی ترامیم پارلیمنٹ کااختیارہے، ایک سیاسی راہنما یااسکی جماعت کیسے یہ مطالبہ کرسکتی ہے کہ پارلیمنٹ کی منظورکردہ قانون سازی واپس لی جائے؟ ایک سیاسی راہنما یااسکی جماعت پارلیمنٹ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اس نے جوقانون سازی کی ہے اسے واپس لیاجائے ورنہ وہ احتجاج کریں گے، سر پرکفن باندھ کرلائے جائیں گے،جنازے پڑھوانے کی ہدایات دی جائیں گی،لشکرکشی اورحملہ آورہونے کی دھمکیاں دی جائیں گی اوریہ سب جمہوری حق قراردیاجائیگا۔

عمران خان اوراسکی پارٹی جو سہانے سپنے اکھیوں میں سجائے ہوئے ہیں یہ ہوائی قلعوں کے سواکچھ نہیں۔ وطن عزیزکے باسی اس روزروزکے بے جااورفضول احتجاجوں سے تنگ آچکے ہیں۔ ایک سیاسی راہنمااپنے اعمال وافعال اورسیاسی غلطیوں کے سبب جیل میں ہیں وہ اپنے مسائل دیگرطریقوں سے حل کرنیکی کوشش کریں۔

آئے روزاحتجاج کے نام پردھماچوکڑیاں، سڑکوں اور شاہراؤں کی بندش، آنسوگیس، پولیس کیساتھ آنکھ مچولی، ہاتھاپائی اور پولیس اہلکاروں کی مارپیٹ کو نہ ہی تواحتجاج کانام دیا جا سکتاہے اورنہ ہی یہ کوئی جمہوری حق ہے۔ عمران خان اپنی رہائی کیلئے پارٹی کارکنوں، پولیس اہلکاروں اورعوام کوایندھن کے طورپراستعمال کررہے ہیں۔ حیرت ہے حکومت اورریاست پرکہ وہ انہیں جیل سے تحریکوں اورپرتشدد احتجاجوں کااعلان کرنیکی سہولت فراہم کررہی ہے۔

ان احتجاجوں سے نہ صرف نجی وسرکاری املاک بلکہ عوام کے جان ومال کوبھی خطرہ ہے۔ ایسے احتجاجوں پرپابندی لگانے میں کونساامرمانع ہے؟ خیبرپختونخواکی حکومت دھڑلے سے سرکاری وسائل سیاسی سرگرمیوں کیلئے استعمال کررہی ہے مگرنہ ہی وفاقی حکومت کے کان پرجوں رینگتی ہے اورنہ ہی ریاست اس بارے میں فکرمندہے۔ عوام میں یہ تاثرپختہ ہورہاہے کہ بہت ہوگئے احتجاج، اب پی ٹی آئی کومزید انتشار پھیلانے کی اجازت نہ دی جائے۔

یہ جماعت سیاسی آزادیوں کی آڑ میں ملکی سلامتی سے کھلواڑکررہی ہے۔ جس صوبے سے تحریک چل رہی ہے اورجہاں بشریٰ بی بی ٹکٹ ہولڈرزکوپانچ اوردس ہزارافرادلانے کے احکامات صادرفرمارہی ہیں اورجہاں سے وہ سیاست میں حصہ نہ لینے کے دعوے بھی کر رہی ہیں، سیاسی تقریریں فرمانااوراحتجاج کیلئے ذمہ داریاں لگانااورمانیٹرنگ کرنے کو اگرسیاست میں حصہ لینانہ سمجھا جائے توسیاست میں حصہ لیناکسے کہاجائیگا؟

جن ٹکٹ ہولڈرزکوپانچ اوردس ہزار افرادلانے کے احکامات دئے گئے ہیں، اسکے اخراجات یہ کہاں سے پورے کرینگے؟ کیاپارٹی دے گی؟ بشریٰ بی بی اپنی جیب سے اداکرے گی؟ وزیراعلیٰ گنڈاپور ادا کرینگے؟ یقیناان میں سے کوئی بھی فرد یہ اخراجات برداشت نہیں کرے گا۔ اگرٹکٹ ہولڈرزپانچ اوردس ہزارافرادکو خیبر پختونخواسے اسلام آباد لے جائینگے انکے قیام و طعام کابندوبست کرینگے تو اس پر لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کے اخراجات آئینگے۔

وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں کوقومی دولت کے اس ضیاع کانوٹس لیناچاہئے۔ ایک نام نہادسیاسی جماعت ڈنکے کی چوٹ پراپنی سیاسی سرگرمیوں کیلئے قومی خزانہ لٹا رہی ہے مگرکسی ادارے، نیب، عدلیہ یااحتساب کے دیگرکسی شعبے کے ماتھے پرشکن تک نہیں پڑتی۔ جس صوبے کی دولت لوٹی اورلٹائی جا رہی ہے اسکے باشندوں کونہ گیس دستیاب ہے اورنہ ہی بجلی۔

گنڈاپورحکومت کواپنے صوبے کے عوام پرحم کرناچاہئے۔ عوام اپنے مسائل کاحل چاہتے ہیں انہیں کسی کی رہائی یا احتجاجوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یقیناً سابقہ احتجاجوں کی طرح یہ فائنل کال بھی ناکام ہوگی اورملک میں انتشاوروانارکی پھیلانے والے مایوس ہونگے۔ بنگلہ دیش ماڈل کاخواب دیکھنے والوں کے خوابوں کاچکناچورہونا نوشتہء دیوارہے۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket