وزیراعلیٰ خیبرپختونخواعلی امین گنڈاپورنے جب سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں تب سے صوبے کے ماحول پرہنگامہ خیزیوں کاراج ہے۔ گزشتہ ہفتے یہ ہنگامہ خیزیاں عروج پررہیں بانی پی ٹی آئی نے جیل سے ڈی چوک میں احتجاج کااعلان کیااورجوازکے طورپرحکومت کے سامنے چندنامعقول مطالبات رکھ دئے جسے منظورکرناحکومت کیلئے ممکن نہیں تھا۔مگردوسری جانب وزیراعلیٰ اوربشریٰ بی بی 24 نومبر کیلئے بھرپورتیاریوں میں مصروف رہے۔ بشری ٰ بی بی نے پارٹی اجلاسوں سے خطاب کیااوراراکین اسمبلی کوہدایات دیں کہ وہ پانچ اوردس ہزارکی تعدادمیں کارکنوں کولانے کے ذمہ دارہونگے۔انکی بھرپورکوششوں کے باوجودکارکنوں کی خاصی کم تعدادنے احتجاج میں شرکت کی۔ اور اراکین اسمبلی بھی مطلوبہ تعدادمیں کارکن نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے،اسکی ایک وجہ گزشتہ اڑھائی سالوں سے مسلسل ناکام احتجاجی پروگرا مز ہیں جن سے کارکن تھکاوٹ یااکتاہٹ کاشکارہوچکے ہیں تودوسری وجہ تین بارعلی امین گنڈاپورکی عین موقع پرغائب ہوجانا اور بعد ازاں نمودارہوکراپنی گمشدگی کی مختلف قصے کہانیاں گھڑنا ہے۔
بشریٰ بی بی کے حوالے سے صوبائی حکومت کے ترجمان اورپارٹی عہدیدار دعوے کرتے رہے کہ وہ احتجاج میں شریک نہیں ہونگیں اوروہ ایک غیرسیاسی اورگھریلوخاتون ہیں۔انکی جانب سے جاری کردہ ویڈیومیں جب سعودی عرب کے حوالے سے تنازعہ کھڑاہوگیاتوبیرسٹرسیف نے بیان جاری کیاکہ بشریٰ بی بی غیرسیاسی خاتون ہیں اورانکی کسی بات کوپارٹی پالیسی نہ سمجھاجائے مگربشریٰ بی بی احتجاج میں شریک بھی ہوئیں ،اسکی قیادت بھی کی اوراپنی سیاست کاآغازبھی ایک بڑی مہم جوئی سے کیا جس میں انہیں افسوس ناک ناکامی کاسامناکرناپڑا۔پارٹی کے سنیئرراہنمااب انکی سیاسی ناتجربہ کاری پرسوالات اٹھا رہے ہیں مگر ناکامی سے قبل کسی بھی سورما کوانکی ناتجربہ کاری یاغیرسیاسی ہونے پرکوئی سوال اٹھانے کی جرات نہ ہوئی بلکہ بیشترراہنماانکی نظرالتفات اوران سے ملاقات کے متمنی رہے۔ بہرحال ناکامی کاملبہ کسی پرتوڈالناتھااس کیلئے فی الحال بشریٰ بی بی کے گلے میں پھندافِٹ آتا ہے ورنہ اس سے قبل بھی اسی طرح کے چاراحتجاجی پروگرامزناکامی سے دوچارہوچکے ہیں ۔جیل میں بیٹھے عمران خان کویقین ہے کہ وہ بہت بڑے احتجاج کے نتیجے میں رہاہونگے جبکہ انکے پارٹی رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ احتجاجوں سے انکی رہائی ممکن نہیں اسلئے حالیہ احتجاج میں سنیئرقیادت یاتو سرے سے غائب رہی یا پھرشاہ فرمان جیسے کئی سنیئرراہنماٹک ٹاک کیلئے ویڈیوزبناکرصوابی کے آس پاس سے نودوگیارہ ہوگئے اوراب شوکت یوسفزئی جیسے راہنما بشریٰ بی بی کی ڈی چوک میں احتجاج پراصرارکوتنقید کانشانہ بنارہے ہیں۔
ڈی چوک احتجاج کی ناکامی اوروہاں پیش آنے والے واقعات پرحسب روایت تحریک انصاف جھوٹے پروپیگنڈے کامیدان گرم کئے ہوئے ہے کبھی دس پندرہ توکبھی دوسواٹھتر یا پانچ چھ سوکارکنوں کی شہادت کابے بنیاددعویٰ کیاجارہاہے جس کاکوئی ثبوت پیش نہیں کیاجارہا۔صوبائی حکومت کی مسلسل احتجاجوں میں مصروفیت اوروفاق پرلشکرکشی کے بعد صوبے میں گورنرراج کے خدشات میں اضافہ ہواہے وفاق میں اس حوالے سے چہ مہ گوئیوں کاآغاز ہوچکاہے مگرگورنرراج پراتفاق خاصامشکل نظرآرہا ہے وفاقی حکومت نے اے این پی اورجے یوآئی کواعتمادمیں لینے کافیصلہ کیاہے ان دونوں جماعتوں کوگورنرراج پرآمادہ کرناآسان نہیں ہوگاگورنرپیپلزپارٹی کاہونے کے باعث کسی دیگرجماعت کوگورنرراج میں کوئی فائدہ نہیں ۔اے این پی کے ایمل ولی خان توپہلے ہی پریس کانفرنس کے ذریعے اگرچہ صوبائی حکومت اورتحریک انصاف کوآڑے ہاتھوں لے چکے ہیں مگرگورنرراج کی مخالفت بھی کرچکے ہیں۔مولانافضل الرحمان بھی گورنرراج کی حمایت کرتے اگرگورنران کے سمدھی غلام علی ہوتے انکی حمایت بھی انتہائی مشکل دکھائی دے رہی ہے ۔موجودہ حکومت اوروزیراعلیٰ کی رخصتی کیلئے ماحول خاصاسازگارہے ۔ایک جانب صوبے میں امن وامان کی صورتحال ناگفتہ بہہ ہے ،حکومتی رٹ کمزورہونے کے سبب سٹریٹ کرائمز،چوری، ڈکیتی ،رہزی ،موبائل سینچنگ ، اغوا اور قتل مقاتلے کے واقعات میں ہوشربااضافہ ہواہے۔ دہشت گردی کوتوصوبائی حکومت اپنی ذمہ داری سمجھتی نہیں ، کرم میں حالیہ واقعات اور اس سے ایک دوماہ قبل کے خونچکاں سانحات نے بھی صوبائی حکومت اوروزیراعلیٰ کی کارکردگی پرسوالیہ نشان ثبت کئے ہیں۔
کرم کے حالیہ خونی واقعات میں جاں بحق افرادکی تعدادایک سوبیس سے بڑھ چکی ہے۔ مسئلے کی سنگینی کے پیش نظروزیراعلیٰ اورصوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ معصوم شہریوں کی حفاظت کیلئے فوری اورمؤثر اقدامات کرتے خیبرکی طرح سیاسی جماعتوں کواعتمادمیں لیاجاتانقل مکانی کرنے والوں کوسہولیات فراہم کی جاتی مگراپنے فرائض کی بجاآوری کی بجائے صوبائی حکومت اوروزیراعلیٰ کفن اورجنازوں کی معیت میں اسلام آبادپرحملہ آورتھے ۔دہشت گردی کے بڑھتے واقعات ،امن وامان کی ناگفتہ بہہ صورتحال اورکرم میں حالیہ خونریزی اوراسکی روک تھام کیلئے صوبائی حکومت کی غیر سنجیدگی گورنرراج کیلئے کافی موادفراہم کرتے ہیں وزیراعلیٰ نے صوبائی اسمبلی سے اپنے خطاب میں گورنرراج اوروفاقی حکومت کوللکاراہے اورآئندہ مسلح ہوکراحتجاج کاعندیہ دیاہے۔ اگراب تک صوبے میں گورنرراج کافیصلہ نہیں ہواتومقتدرہ کومحض یہ خوف ہے کہ جس طرح عمران خان عدم اعتماد سے قبل عوام میں زیروہوچکے تھے 2021ء کے خیبرپختونخوابلدیاتی انتخابات میں کوئی امیدواربلے کانشان لینے پرآمادہ نہیں تھا۔
وفاقی اورصوبائی دونوں حکومتوں کی بدترین کارکردگی اورنااہلی سے عوام نالاں تھے ویلیج اور نائبر ہوڈ کونسلزکابلدیاتی نظام تحریک انصاف نے لاگوکیاتھااس کیلئے قانون سازی بھی اسی جماعت نے کی تھی اوراس پرفخریہ بغلیں بجائی گئی تھیں کہ تاریخ میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پرہونگے مگرنائبرہوڈاورویلیج کونسل انتخابات میں پارٹی امیدواروں نے بلے کی بجائے تھرماس اورپنکھے وغیرہ کے نشان پرانتخابات میں حصہ لیاتھا۔مگرعدم اعتمادکی کامیابی پرعمران خان کی مقبولیت بے انتہابڑھ گئی اوراب وہ ریاست کیلئے درد سربنے ہوئے ہیں ۔یہی خوف مقتدرہ کو دامن گیرہے کہ کہیں علی امین گنڈاپوررخصتی کے بعدمظلوم نہ بن جائیں ۔صوبائی حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے وہ اپنی اصل ذمہ داریوں پرتوجہ مرکوزکرے ۔عمران خان کوبھی پے درپے ناکامیوں سے سیکھناچاہئے کہ ایک توکسی احتجاج سے انکی رہائی ممکن نہیں وہ بنگلہ دیش ماڈل کے خواب دیکھناچھوڑدیں بنگلہ دیش اورپاکستان یکسرمختلف ممالک ہیں ۔علی امین گنڈاپور اپنی منصبی ذمہ داریاں اداکرناچاہتے ہیں انہیں آزادکردیں احتجاجوں سے انکی رہائی ممکن نہیں الٹا ندامت کاسامناکرناپڑتاہے ۔احتجاج کے بغیر اگران کاگزارانہیں تووہ اس مقصدکیلئے کسی دیگرراہنماکااستعمال کریں ۔صوبے اوراسکے باشندوں پررحم کریں تین مرتبہ اعتمادکرنے پرانہیں سزامت دیں ورنہ تخت تک پہنچانے والوں کاغیض وغضب تختے تک پہنچانے میں دیرنہیں لگائیگی۔
وصال محمد خان