پاکستان تحریک انصاف 8 فروری کو اپنے دعوؤں کے برعکس ایک بار پھر اس کے باوجود صوابی میں کوئی قابل ذکر پاور شو کرانے میں ناکام رہی کہ صوبے میں اس کی حکومت ہے اور چند ہفتے قبل پارٹی کی صوبائی قیادت میں بھی تبدیلی لائی گئی تھی دوسری جانب پارٹی کے بانی عمران خان نے پہلے خط کا کوئی رسپانس نہ ملنے کے باوجود آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو دوسرا کھلا خط بھی لکھ کر اسے پبلک کیا ہے ۔
صوبائی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی اکثر تجزیہ کاروں نے صوابی میں ہونے والے جلسہ عام کو پارٹی کے دعوؤں کے برخلاف ایک ناکام اجتماع کا نام دیا ہے اور اکثر کا خیال ہے کہ اس میں 20 سے 30 ہزار کے لگ بھگ کارکن شریک ہوئے حالانکہ اگر صرف صوابی سے پارٹی کو ملنے والے 2024 کے انتخابات کے دوران ملنے والے ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو پارٹی کو تقریباً ساڑھے چھ لاکھ ووٹ ملے تھے ۔ اگر ان ساڑھے چھ لاکھ میں سے ساڑھے پانچ لاکھ کو عام لوگ اور ووٹرز قرار دیکر باہر کیا جائے تو بھی ایک لاکھ ہارڈ کور ورکرز رہ جاتے ہیں مگر وہ تو ایک طرف پارٹی پورے صوبے سے ایک لاکھ کا مجمع کرانے میں بھی کامیاب نہ ہوسکی حالانکہ چند کلومیٹر کے فاصلے پر نوشہرہ ، مردان اور بعض دیگر وہ بڑے شہر بھی واقع تھے جہاں پی ٹی آئی کو 2025 کے الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل ہوئی ۔
اس وقت خیبرپختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے تقریباً 100 ممبران اسمبلی ہیں جبکہ صوبے سے منتخب قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 40 کی لگ بھگ ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھی شریک لوگوں کی تعداد بہت کم رہی ۔ اگر چہ بعض لیڈروں اور ممبران اسمبلی نے اس ایونٹ میں متوقع طور پر تین سے سات لاکھ تک کے لوگوں کی شمولیت کے آن دی ریکارڈ دعوے کئے تھے مگر حسب معمول یہ دعوے غلط ثابت ہوگئے اور یہ معمول کی ایک سرگرمی ثابت ہوگئی ہے ۔ دوسروں کے علاوہ پی ٹی آئی کے بیرون ملک بیٹھے ہوئے ” یوٹیوبرز ” نے بھی شرکاء کی تعداد پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور بعض نے یہاں تک کہا ہے کہ پارٹی کے اندرونی اختلافات اور صوبائی حکومت کے اندر جاری کھینچا تانی کے باعث پارٹی صرف خیبرپختونخوا تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور وہاں بھی یہ صوبائی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی کوئی قابل ذکر کراؤڈ دکھانے کا مظاہرہ نہیں کر پائی ۔
پنجاب کے دور دراز کے شہر اور علاقے تو دور کی بات صوابی سے کچھ ہی فاصلے پر واقع علاقوں کے پی ٹی آئی کے عہدے دار اور کارکن اس جلسے سے لاتعلق دکھائی دیئے ۔
جنید اکبر خان ، سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر نے کافی معتدل تقاریر کیں اور ان کا مجموعی رویہ سنجیدہ اور سیاسی رہا تاہم خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے نہ صرف یہ کہ مخالفین اور حکومت میں شامل اتحادیوں کے خلاف انتہائی غیر پارلیمانی اور غیر اخلاقی الفاظ استعمال کیے بلکہ انہوں نے بعض ایسے نعرے بھی لگائے جو کہ کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ تو درکنار کسی عام کارکن کو بھی زیب نہیں دیتے ۔ اسی نوعیت کا طرزِ عمل پشاور کے ” پروٹوکول ” سے مزے اڑانے والے مرکزی ترجمان شیخ وقاص اکرم نے بھی اختیار کیا ۔
دوسری جانب اسی روز پارٹی کے بانی عمران خان نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو ایک اور کھلا خط پبلک کیا جس میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ان کے ساتھ غیر جمہوری رویہ اختیار کیا گیا ہے اور یہ کہ اس رویے کے باعث پاکستان کی مسلح افواج اور عوام کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے ۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ اس خلیج کے باعث ملک کی سلامتی اور استحکام کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں اس لیے فوج ان کے بقول سیاسی معاملات میں دخل دینے سے گریز کریں ۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق پہلے والے خط پر ملٹری لیڈر شپ نے جو ” رسپانس” دیا تھا اس کے بعد اس دوسری کوشش کی کوئی لاجک نظر نہیں آتی تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سابق وزیراعظم ان خطوط سے یہ پیغام پبلکلی دے رہے ہیں کہ فوج ان کے ساتھ براہ راست کوئی مذاکرات یا مفاہمت کریں جو کہ فی الحال ممکن دکھائی نہیں دے رہا ۔ ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ عمران خان اور ان کے اہم لیڈرز فرسٹریشن کا شکار ہوگئے ہیں اور مذاکراتی عمل سے باہر نکل کر ان کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے جس کے باعث اب ” کھلے خطوط ” کا عجیب وغریب فارمولا استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ عمران خان ماضی قریب میں نہ صرف آرمی چیف بلکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھی حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مختلف القابات سے نوازتے رہے ہیں ۔ تجزیہ کاروں کے بقول ملٹری اسٹبلشمنٹ کی یہ پالیسی عمران خان اور ان کی پارٹی کو بہت ” کھٹکتی ” ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے کوئی مذاکرات وغیرہ کرنے ہیں تو وہ سیاسی حکومت اور سیاست دانوں سے کریں ۔
عقیل یوسفزئی