Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, March 17, 2025

دارالعلوم حقانیہ کا پس منظر اور حالیہ حملہ

28 فروری 2025 کو جمعہ کے روز اکوڑہ خٹک میں واقع دارالعلوم حقانیہ میں ہونے والے خودکش حملے نے بہت سے سوالات کھڑے کردیے ہیں ۔ اگر چہ کسی بھی گروپ نے تاحال اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے تاہم مزاحمتی مذہبی گروپوں پر کام کرنے والے اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ طالبان وغیرہ کے اندرونی معاملات اور اختلافات کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ اس حملے میں جے یو آئی (س) کے سربراہ اور مولانا سمیع الحق کے جانشین مولانا حامد الحق کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کے علاوہ 6 دیگر افراد بھی اس حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے ۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے ایک رسمی بیان میں اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر ڈال دی ہے تاہم تجزیہ کار اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ مولانا حامد الحق کے پاکستان کے ریاستی اداروں کے ساتھ ہمیشہ بہتر تعلقات رہے ہیں اور انہوں نے کچھ عرصہ قبل افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا جہاں انہوں نے اہم افغان عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں ۔ وہ سی ایم ہاوس پشاور میں ایک مذاکراتی عمل کے لیے بلائے گئے مشاورتی عمل کا بھی حصہ رہے ۔ ان کے والد مولانا سمیع الحق سال 2018 کے دوران اسلام آباد میں پراسرار طور پر قتل کیے گئے تھے تاہم برسوں گزرنے کے باوجود یہ پتہ نہیں چل سکا کہ انہیں کس نے قتل کیا تھا ۔ ان کی موت کے بعد مولانا حامد الحق ان کے گدی نشین بن گئے ۔ حامد الحق 2002 کے الیکشن میں اس علاقے سے رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے تھے اور وہ اپنے دوستانہ روابط اور رویے کے باعث مذہبی حلقوں کے علاوہ تمام سیاسی حلقوں میں کافی مقبول تھے ۔
دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد مولانا حامد الحق کے دادا مولانا عبد الحق نے 1947 میں رکھی تھی اور اس سے دوسروں کے علاوہ افغانستان کے اہم طالبان اور مجاہد لیڈروں ، کمانڈروں نے تعلیم حاصل کی ۔ ان میں حقانی نیٹ ورک کے بانی مولانا جلال الدین حقانی اور موجودہ سربراہ سراج الدین حقانی ، مولوی یونس خالص اور محمد نبی محمدی جیسے اہم کمانڈر بھی شامل رہے ہیں ۔ حقانی نیٹ ورک پر اس دارالعلوم کا بڑا گہرا اثر رہا ہے اور حالیہ حملے کو بعض حلقے اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ 10 دسمبر 2024 کو کابل میں حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنما ، وفاقی وزیر خلیل حقانی کو جمعہ ہی کے روز اسی پیٹرن پر خودکش بمبار نے نشانہ بنایا تھا جس کے الزامات افغان حکومت میں شامل قندھاری گروپ پر لگائے گئے اور اسی تلخی نے قندھاری اور حقانی گروپوں میں اتنی دوریاں پیدا کیں کہ سراج الدین حقانی وزیر ہوکر بھی بیرون ملک منتقل ہوگئے ۔
دارالعلوم حقانیہ نے ماضی میں خودکش حملوں کے خلاف متعدد بار فتوے بھی دیے جس کے باعث بعض ہارڈ کور گروپوں نے اس طرزِ عمل پر شدید ردعمل بھی دکھایا جبکہ اس دارالعلوم نے پولیو کے قطرے پلانے کے حق میں متعدد مواقع پر تاریخی کردار ادا کیا ۔ مولانا سمیع الحق ان علماء میں سرفہرت تھے جنہوں نے پولیو قطرے پلانے کی مہم میں بنیادی کردار ادا کیا اور دارالعلوم حقانیہ سے فتوے بھی جاری کیے ۔
دارالعلوم حقانیہ پر ہونے والے حملے کو بعض حلقے سمیع الحق خاندان کے گھریلو تنازعات کا نتیجہ بھی قرار دیتے ہیں تاہم جس انداز میں یہ حملہ کرایا گیا وہ واضح انداز میں دہشت گردی کا واقعہ نظر آتا ہے کیونکہ خاندانی تنازعات کے پس منظر میں اتنے بڑے واقعہ کا رسک لینا منطق سے باہر بات لگ رہی ہے اور اگر مولانا حامد الحق کو اس تناظر میں راستے سے ہٹانا مقصود تھا تو یہ کام دارالعلوم سے باہر بھی کیا جاسکتا تھا ۔
بعض حلقے اس حملے کو داعش کی کارروائی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں کیونکہ داعش ایک پالیسی کے تحت پاکستان اور افغانستان کے مذہبی لیڈروں کو نشانہ بناتی آرہی ہے اور مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کو بھی داعش نے متعدد بار نشانہ بنایا ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس حملے کی رپورٹس طلب کی ہے اس لیے توقع کی جارہی ہے کہ اس حملے کے ذمہ داران کی نشاندھی ہوسکے گی کیونکہ خودکش بمبار کی ویڈیو پہلے ہی سے موجود ہے جس کے ذریعے ان کی آسانی کے ساتھ شناخت ہوسکتی ہے ۔ 57 سالہ حامد الحق کی موت کے بعد دارالعلوم حقانیہ کا مستقبل کیا ہوگا اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم اس حملے نے نہ صرف اس تاریخی درسگاہ کو بلکہ ایسے دیگر جامعات کے مستقبل کو بھی سوالیہ نشان بنادیا ہے ۔ یاد رہے کہ دارالعلوم حقانیہ کو گزشتہ کئی سالوں سے مالی مشکلات کا بھی سامنا رہا ہے اور گزشتہ سال اس سلسلے میں باقاعدہ ایک چندہ مہم چلائی گئی ۔ صوبائی حکومت دو بار اس جامعہ کو گرانٹس دیتی رہی ہے جس کے باعث صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کو اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔
عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket