منگل کی شام کو عین افطاری کے وقت بنوں کینٹ پر حافظ گل بہادر گروپ کی ایک اور شاخ نے دو خودکش حملے کیے جس کے نتیجے میں 4 بچوں اور 3 خواتین سمیت 12 شہری شہید جبکہ 32 زخمی ہوگئے جن میں 4 کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ تقریباً 3000 کلو گرام کے بارودی مواد کے ساتھ دو گاڑیوں کے ذریعے کینٹ پر خورکش حملے کئے گئے جس کے ردعمل میں فورسز نے ایکشن لیتے ہوئے 6 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا جبکہ 9 دیگر کی تلاش شروع کردی گئی اور فوری طور پر سرچ اینڈ کلیئرنس آپریشن کا آغاز کیا گیا جو کہ رات گئے تک جاری رہا ۔ دھماکے اتنے خوفناک تھے کہ قریبی گھروں کی چھتیں گر گئیں جس کے باعث اموات واقع ہوگئیں ۔ ایک قریبی مسجد کے بعض حصے بھی شہید ہوئے ۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے اتحادی حافظ گل بہادر گروپ کے ایک نئے شاخ نے اس خوفناک حملے کی ذمے داری قبول کی ہے ۔ نامور تجزیہ کار اسماعیل خان کے مطابق حافظ گل بہادر گروپ نے اتنی بڑی کارروائی کرتے ہوئے جہاں ایک بڑے خطرے کا آغاز کردیا ہے وہاں یہ حملہ مین سٹریم ٹی ٹی پی کے لیے بھی ایک ” سرپرائز سمجھا جاسکتا ہے۔
صحافی افتخار فردوس کے بقول مذکورہ گروپ کے نہ صرف یہ کہ القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں بلکہ الیاس کشمیری گروپ کے ساتھ بھی ان کے تعلقات ہیں ۔ ان کے مطابق چند روز قبل ان کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ اسلام آباد کے جامعہ حفصہ کا انتقام لیا جائے گا اور بنوں حملے کو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
سینئر اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کے مطابق خیبر پختونخوا میں حملوں کی ایک نئی لہر چل پڑی ہے جس کے باعث عوام میں تشویش بڑھ گئی ہے تاہم بعض سیاسی حلقے اس صورتحال کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر ڈال رہے ہیں جس نے ان کے بقول دہشت گردوں کو سہولیات فراہم کیں۔
دریں اثنا بنوں سے رکن صوبائی اسمبلی پختون یار نے ایک ویڈیو پیغام میں اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کو اس طرح عام شہریوں اور فورسز کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
وزیر اعظم شہباز شریف ، صدر آصف علی زرداری اور وزیر داخلہ محسن نقوی سمیت متعدد دیگر رہنماؤں نے پاکستان فوج کی جانب سے 6 خوارج کی بروقت ہلاکت پر فوج کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کیا ہے۔
جس وقت بنوں کا حملہ جاری تھا عین اسی دوران خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ایک خبر میڈیا کو جاری کردی گئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا کے امن کے لیے افغانستان جانیوالے مذاکراتی وفد کی ٹی او آرز مکمل کیے گئے ہیں ۔ ان کے اس بیان کو سیاسی اور عوامی حلقوں نے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے حملوں کے باوجود وزیر اعلیٰ دہشت گردوں سے مذاکرات کی وکالت کیوں کررہے ہیں ۔ دوسری جانب منگل کے روز بھی طورخم بارڈر پر سخت کشیدگی رہی اور وقفے وقفے سے فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔
اس سے دو روز قبل کالعدم ٹی ٹی پی نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا گیا کہ ماہ فروری میں اس نے خیبرپختونخوا پر تقریباً 145 حملے کئے ہیں۔
عقیل یوسفزئی
