Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, April 13, 2025

قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اور پی ٹی آئی کا مجرمانہ فیصلہ

پاکستان کی سیاسی ، پارلیمانی اور عسکری اسٹیک ہولڈرز نے ملک سے دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خاتمے پر اتفاق رائے کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی رعایت یا نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔ اس عزم کا اظہار اسپیکر قومی اسمبلی کے زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے ایک غیر معمولی اجلاس میں پی ٹی آئی کے بغیر تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے پارلیمانی لیڈرز کے علاوہ آرمی چیف سمیت دیگر اعلیٰ عسکری حکام نے شرکت کرتے ہوئے ملک میں دہشتگردی کی جاری لہر پر قابو پانے کے مزید اقدامات اور کارروائیوں پر اتفاق رائے کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کو کمزور اور عدم استحکام سے دوچار کرنے والے عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف تمام درکار ریاست اور سیاسی کارروائیوں کو یقینی بنایا جائے گا۔ جاری کردہ اعلامیے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اعلیٰ عسکری حکام نے شرکاء کو جاری حالات اور چیلنجر پر تفصیلی بریفنگ دی اور ان اقدامات کی تفصیلات بھی بتادیں جو کہ امن کے قیام کے لیے ایک فورسز کی جانب سے کیے جارہے ہیں۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ قومی سلامتی کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا اور پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف اس ضمن میں پوری طرح پُرعزم ہیں بلکہ ایسا کرنے کی صلاحیت اور طاقت بھی رکھتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ علماء سمیت معاشرے کے دیگر متعلقہ حلقوں کو خوراج اور انتہا پسند عناصر کے اسلام کے مسخ شدہ شکل کو بگاڑنے پر ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ عناصر ایک پرتشدد اسلام کی تشریح کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ آرمی چیف کے مطابق پاکستان کو گورننس کے ایشوز درپیش ہیں جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے تاہم ایک بات بالکل واضح اور اٹل ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ ان کے بقول ہم کب تک “سافٹ اسٹیٹ” بن کر ایسے عناصر کے ساتھ رعایت برتے رہیں گے اور قربانیاں دیتے رہیں گے؟
کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہوتی آرہی ہے اور بعض دیگر پاکستان مخالف طاقتیں بھی دہشت گردوں اور شرپسندوں کی سرپرستی میں مصروف عمل ہیں۔ اس موقع پر ایک مخصوص پارٹی اس کے حامیوں اور بعض اسپانسرڈ میڈیا پرسنز کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان مخالف پروپیگنڈا کی بھی شدید مذمت کی گئی اور اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے مختلف تجاویز پیش کی گئیں کہ ان شرپسندوں کے ساتھ بھی سختی سے نمٹا جائے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور بعض دیگر اہم لیڈرز نے اجلاس میں پی ٹی آئی اور چند دیگر پارٹیوں کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک کی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی بات اہم نہیں ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہر آپشن استعمال کیا جائے گا تاہم بعض سیاسی عناصر کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔
اس موقع پر تمام اہم سیاسی قائدین اور پارلیمانی لیڈرز نے حکومت اور عسکری اداروں کو دہشتگردی کے خلاف ہر درکار تعاون کا یقین دلایا اور اس ضمن میں زیرو ٹاولرنس کی پالیسی اختیار کرنے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا۔
ماہرین نے اس نشست کو جاری دہشت گردی اور شرپسندی کے تناظر میں انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے تاہم انہوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے کمیٹی کے اجلاس سے بائیکاٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ قرار دیا ہے۔ اگر چہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور دیگر وزراء اعلیٰ کے ہمراہ اجلاس میں شریک ہوئے تاہم پی ٹی آئی نے بحیثیت سیاسی پارٹی اجلاس سے بائیکاٹ کیا جس پر سیاسی اور عوامی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس اہم موقع پر بھی پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہوئے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
عقیل یوسفزئی

قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اور پی ٹی آئی کا مجرمانہ فیصلہ

Shopping Basket