Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Tuesday, June 24, 2025

افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں جدید اسلحے کی غیر قانونی ترسیل

افغانستان میں برسوں سے جاری جنگوں کے دوران چھوڑے گئے سویت، امریکی اور نیٹو اسلحے کی رسائی اب بھی جاری ہے، نہ صرف افغان مشرقی صوبوں میں بلکہ پاکستان کے قبائلی اضلاع میں بھی۔ اگرچہ طالبان حکومت نے اسلحے کی ترسیل پر بظاہر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اس غیر قانونی بہاؤ کو روکنے میں ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔

اسمال آرمز سروے (Small Arms Survey) کی جانب سے جاری کردہ تازہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں سابقہ افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز کو دیے گئے ہتھیاروں اور گولہ بارود اب غیر رسمی ہتھیاروں کی اسمگلنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ تحقیق 2022 سے 2024 کے درمیان افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں واقع غیر قانونی اسلحہ مارکیٹوں میں کی جانے والی فیلڈ ریسرچ پر مبنی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سابقہ حکومت کے ہتھیاروں کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا، اور شہریوں کو اسلحے تک رسائی محدود کر دی گئی۔ تاہم، طالبان اہلکاروں کی مبینہ چشم پوشی سے اسمگلنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے کالعدم قرار دیے گئے شدت پسند گروہ، جن میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور القاعدہ شامل ہیں، نہ صرف اسلحے کے حصول میں سرگرم ہیں بلکہ انہیں افغان حکام کی طرف سے مسلسل اسلحہ فراہم بھی کیا جا رہا ہے۔

تحقیق کے مطابق، طالبان کے دہشتگرد نیٹ ورکس اور سرحد پار روابط نے اسمگلنگ کو روکنے کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ سرحدی علاقوں میں قائم اسلحہ مارکیٹیں اس پیچیدگی کی واضح مثال ہیں۔ اس غیر قانونی تجارت میں مقامی طالبان عناصر، پرانے اسمگلنگ نیٹ ورکس اور سابقہ شورشوں کے دوران اسلحے کے خرید و فروخت میں سرگرم افراد شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 کے اختتام کے بعد سے افغانستان اور پاکستان میں اسلحے کی قیمتوں میں واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ افغان صوبوں میں قیمتوں میں خاصا اتار چڑھاؤ دیکھا گیا، جبکہ پاکستان میں قیمتیں نسبتاً مستحکم رہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان کے پکتیکا صوبے میں امریکی ساختہ ایم 4 رائفل کی قیمت 2,219 امریکی ڈالر جبکہ خوست میں یہی رائفل 4,817 ڈالر تک فروخت ہو رہی ہے۔ ننگرہار میں اسلحے کی قیمتیں خوست کے برابر ہیں جہاں ایم 4 کی کم از کم قیمت 4,379 ڈالر جبکہ کلاشنکوف طرز رائفل کی زیادہ سے زیادہ قیمت 1,386 ڈالر ریکارڈ کی گئی۔

پاکستانی سرحد کے قریب واقع ننگرہار کے ضلع دربابا میں ایک ایم 4 رائفل 3,722 ڈالر میں جبکہ مقامی ساختہ کلاشنکوف محض 218 ڈالر میں دستیاب ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں نیٹو اور سوویت طرز کے ہتھیاروں کی قیمتیں کافی حد تک مستحکم ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں جاری فوجی آپریشن ’عزمِ استحکام‘ کا ان قیمتوں پر براہِ راست کوئی اثر نظر نہیں آتا، لیکن مقامی ذرائع کے مطابق اسلحہ ڈیلر ممکنہ گرفتاریوں اور ضبطی کے خطرے کے باعث نیٹو ساختہ اسلحے کی کھلے عام نمائش سے گریز کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کچھ رجحانات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ مثلاً 2022 کے آخر سے 2024 کے وسط تک ننگرہار اور کنڑ میں ایم 4 رائفل کی قیمت میں 13 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس کی اوسط قیمت 1,787 ڈالر سے بڑھ کر 3,813 ڈالر ہو گئی۔ اسی عرصے میں ایم 16 رائفلز کی فروخت میں 38 فیصد اضافہ ہوا، جس کی قیمت 1,020 سے بڑھ کر 2,434 ڈالر تک جا پہنچی۔ اس رجحان کو محدود رسد اور بڑھتی ہوئی طلب کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔

اس کے برعکس، اے کے پیٹرن رائفلز اور آر پی جی لانچرز کی قیمتوں میں معمولی اضافہ دیکھا گیا جبکہ چینی ساختہ ٹائپ 56 رائفلز کی قیمتیں کم ہوئیں۔ رپورٹ میں نائٹ ویژن ڈیوائسز کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، جو 2,575 ڈالر سے گھٹ کر محض 781 ڈالر رہ گئی ہیں، یعنی تقریباً 70 فیصد کمی۔

رپورٹ اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ اسلحے کی غیر قانونی دستیابی نہ صرف سکیورٹی اداروں بلکہ پورے خطے کے لیے ایک سنگین چیلنج بنی ہوئی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب افغانستان میں سیاسی غیر یقینی اور سرحدی کشیدگی بدستور قائم ہے۔

افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں جدید اسلحے کی غیر قانونی ترسیل

Shopping Basket