Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, April 25, 2025

بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی صف بندی

عقیل یوسفزئی
گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ایک حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں نیوی کے بعض افسران سمیت دو درجن کے لگ بھگ افراد ہلاک جبکہ 12 زخمی ہوئے ۔ حملے کی پوری تفصیلات ابھی سامنے آئی بھی نہیں تھیں کہ بھارتی میڈیا نے اس کی زمہ داری منٹوں کے اندر پاکستان پر ڈالتے ہوئے یکطرفہ پروپیگنڈا کی باقاعدہ مہم شروع کردی ۔ راء سے جڑی ایکس اکاؤنٹس نے پرانی اور ویڈیو شاپ ویڈیوز اور فوٹوز کے ذریعے بھارتی حکومت سے پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگ کرنے کی مہم چلائی حالانکہ اپوزیشن لیڈر راھول گاندھی اور متعدد ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس واقعے کو انٹلیجنس ایجنسیوں اور حکومت کی نااہلی ، ناکامی قرار دیتے ہوئے باقاعدہ بیانات جاری کئے اور مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں مظاہرے کیے گئے ۔ حملے کے بعد جب عالمی میڈیا کے نمائندوں کی ٹیمیں پہلگام پہنچ گئیں تو حکام نہ ان کو جائے وقوعہ کا دورہ کرنے اور عوام سے بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی ۔
حملے کے وقت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر تھے حالانکہ عین اسی دوران ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد دہلی میں موجود تھا ۔ مودی نے دورہ مختصر کرکے دہلی ایئر پورٹ ہی پر ہی ایک ہنگامی اجلاس طلب کرلیا جبکہ ایک اور اعلیٰ سطحی اجلاس کا انعقاد بھی کیا گیا ۔ کسی تحقیق کے بغیر بھارتی حکومت اور میڈیا نے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے متعدد ایسے فیصلے کئے جن پر عالمی ماہرین نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے متعدد سوالات اٹھائے ۔ ان اقدامات میں 1960 کو دریاؤں کی تقسیم کا ” سندھ طاس معاہدہ کی یکطرفہ منسوخی بھی شامل ہے حالانکہ اس کی منسوخی کے لیے نہ صرف دونوں فریقین کی رضامندی لازمی ہے بلکہ ضامن کے طور پر ورلڈ بینک کی منظوری بھی ضروری ہے ۔ واہگہ بارڈر بند کرنے سمیت پاکستانی سفارتی عملے میں کمی اور پاکستانیوں کے ویزوں کی منسوخی جیسے اقدامات بھی کئے گئے جس کے ردعمل میں پاکستان نے واضح کردیا کہ وہ کسی بھی قسم کے اقدام اور کارروائی کا بھرپور جواب دے گا اور یہ کہ بھارت اپنی سیکیورٹی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے روایتی طریقے پر عمل پیرا ہے ۔ بی بی سی سمیت متعدد اہم عالمی میڈیا ہاؤسز نے بھارتی طرزِ عمل پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے خدشات ظاہر کیے مگر دوسری جانب سے کوشش کی گئی کہ بھارتی حکومت کو کسی جنگی مہم جوئی پر مجبور کیا جائے ۔
پاکستان کے ریاستی اداروں ، اہم سیاسی قائدین اور قومی میڈیا نے اس جارحانہ طرزِ عمل پر ٹھوس دلائل کی بنیاد پر متفقہ آراء اپناتے ہوئے جذباتیت کی بجائے واقعات کے تناظر میں جینوئن سوالات اٹھائے اور ایک پیج پر رہتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ بھارتی پروپیگنڈا اور جارحانہ طرزِ عمل کے خلاف متحد رہ کر لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا ۔ اسی تناظر میں مشاورت کے لیے اسلام آباد میں اعلیٰ سول اور عسکری قیادت کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کرلیا گیا جس میں بھارتی ردعمل اور متوقع حالات کے تناظر میں اہم فیصلوں کا جائزہ لیا گیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی ایشیا کے ان دو ممالک کے تعلقات کھبی بھی مثالی نہیں رہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر مداخلت کے الزامات لگاتے آرہے ہیں تاہم سوال یہ ہے کہ پاکستان مذکورہ واقعے میں ایک ایسے وقت میں کیونکر ملوث ہونے کا رسک لے گا جبکہ اسے خود نہ صرف یہ کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا سامنا ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ بھی دہشت گردی کے معاملے پر اس کے تعلقات کشیدگی کی حد کو چھو رہے ہیں ؟ ماہرین کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں سات سے نو لاکھ تک کی بڑی فوج رکھنے کے باوجود بھارت سے معاملات کنٹرول نہیں ہونے پارہے اور اس قسم کے واقعات سے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا فایدہ اٹھا کر بھارت اپنی ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے ۔
کچھ عرصہ قبل راہول گاندھی نے اپنے ایک خطاب میں مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی ” جیل ” قرار دیتے ہوئے مودی سرکار کو جاری کشیدگی اور حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جس نے بھارت کے سیکولر امیج کو برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔ متعدد دیگر مین سٹریم لیڈرز بھی حالات کی ذمہ داری مودی سرکار پر ڈالتے آرہے ہیں ۔
دوسری جانب واقعات اور ثبوتوں کے تناظر میں اس حقیقت کو بھی بھارت جھٹلا نہیں سکتا کہ وہ بلوچستان میں ہونے والی ریاست مخالف سرگرمیوں کی نہ صرف فنڈنگ کرتا آرہا ہے بلکہ حملہ اور قوتوں کو تکنیکی مدد بھی فراہم کرتا ہے اور ان تمام اقدامات کا بھارتی حکام ، ماہرین اور میڈیا کے لوگ آن دی ریکارڈ کریڈٹ بھی لیتے ہیں ۔
حالیہ کشیدگی پر اہم علاقائی اور عالمی قوتیں تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہیں کیونکہ ان دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان کشیدگی سے پورے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں ۔ اسی لیے بعض رپورٹس کے مطابق بعض اہم ممالک نے کشیدگی کو کم کرنے کی بیک ڈور کوششوں کا آغاز کردیا ہے اور بھارت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کی جارحیت سے باز رہے تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے اور خطے کو غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ ایسے میں لازمی ہے کہ قومی میڈیا کی طرح پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اندرونی معاملات اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی سلامتی کے تقاضوں اور چیلنجز کا ادراک کریں تاکہ ایک قومی بیانیہ کی تشکیل کا راستہ ہموار کیا جاسکے ۔
( 24 اپریل 2025 )

بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی صف بندی

Shopping Basket