Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, June 30, 2025

خیبرپختونخوا راؤنڈ اپ

خیبرپختونخوا کا سالانہ بجٹ برائے 2025-26ء منظور کر لیا گیا ہے۔ 2 ہزار 1 سو 19 ارب روپے بجٹ کے مقابلے میں اخراجات کا تخمینہ 1 ہزار 9 سو 62 ارب روپے لگایا گیا ہے جس سے 157 ارب روپے پلس ہوں گے۔ یہ سرپلس رقم ابھی صوبے کے ہاتھ آئی نہیں، خزانے میں جمع ہوئی نہیں، اس سے کسی مفید اور انوکھے منصوبے کا آغاز نہیں ہوا، مگر صوبائی حکومت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ اس نے سرپلس بجٹ پیش کرکے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو تاریخ انسانی میں کوئی بھی فرد انجام نہ دے سکا۔

مشیر خزانہ مزمل اسلم نے گزشتہ ہفتے بجا فرمایا تھا کہ دنیا بھر کے بجٹس تخمینوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ ‘‘اتنے ارب اس محکمے کو ملیں گے، اتنے یہاں خرچ ہوں گے اور اتنے وہاں خرچ کیے جائیں گے’’۔ اس میں اگر اخراجات کم اور آمدن زیادہ دکھائی گئی تو بقول مشیر خزانہ یہ محض تخمینہ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سال کے اختتام پر اخراجات بڑھ گئے ہوں اور آمدن کم ہوئی ہو۔ ایسا ہونے کی صورت میں یہ خسارے کا بجٹ کہلائے گا، اس لیے سرپلس بجٹ پر ڈھنڈورے پیٹنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

بجٹ منظوری کے دوسرے ہی دن 192 ارب کا ضمنی بجٹ منظور کر لیا گیا جس سے سرپلس بجٹ کا ٹائی ٹینک سفر کے آغاز سے پہلے ہی ڈوب گیا۔ بجٹ میں صوبے کی اپنی آمدن کا تخمینہ محض 93 ارب روپے لگایا گیا ہے جسے 129 ارب تک بڑھانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ 21 سوانیس ارب روپے کے بجٹ میں اپنی آمدن کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے لگائے گئے ٹیکسز اور محصولات کے مقابلے میں یہ آمدن خاصی کم دکھائی دے رہی ہے۔ صوبے کو اپنی آمدن بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر نریندر مودی کی پانی بند کرنے والی روش وفاق نے اپنائی اور صوبے کی ادائیگیاں روک لیں تو حکومت کے پاس بلبلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

گزشتہ برس کے مقابلے میں غیر ترقیاتی اخراجات خاصے بڑھ چکے ہیں۔ سی ایم اور گورنر ہاؤسز کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے جو تحریک انصاف کی کفایت شعاری دعوؤں کی نفی ہے۔ سی ایم ہاؤس کے چائے بسکٹس کی مد میں 11 کروڑ روپے کا خرچ اور ایمرجنسی میں بجٹ کی منظوری گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹرینڈز رہے۔

سیاسی بیانیہ، بجٹ اور “سازش” کا تاثر

اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا ورکرز اور صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے بجٹ منظور نہ کرنے کے دعوؤں سے روگردانی اور شاہانہ اخراجات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ دونوں معاملات حکومت کے لیے سبکی کا باعث بن رہے ہیں۔ پی ٹی آئی چونکہ ہر معاملے پر سیاست چمکانے اور سیاسی بیان بازی کی عادی رہی ہے، اس لیے بانی نے جیل سے حکم دیا کہ بجٹ ان کی منظوری کے بغیر پیش نہ کیا جائے۔ جس پر پارٹی راہنماؤں کی جانب سے ‘‘بانی کی مرضی کے بغیر بجٹ پیش اور منظور نہیں کریں گے’’ کی گردان شروع ہو گئی۔

وفاق نے صورتحال بھانپتے ہوئے صوبائی حکومت کو اشاروں کنایوں میں باور کروایا کہ اگر حکومت بجٹ پیش نہیں کرے گی تو آئین کے آرٹیکل 234 اور 235 کے تحت گورنر صدر کو معاشی ایمرجنسی کے لیے سفارش کر سکتے ہیں، جس سے ان کی حکومت کا خاتمہ بالخیر ممکن ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ اپوزیشن ارکان اور گورنر کے درمیان ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا جس میں بجٹ پیش یا منظور نہ کرنے کی صورت میں آئندہ کے لائحہ عمل پر غور ہوا۔ جس سے وزیراعلیٰ نے تاثر لیا کہ گورنر حکومت کے خاتمے کی سازش کر رہے ہیں، اس لیے پہلے ایمرجنسی میں بجٹ پیش کیا گیا اور بعد ازاں شیڈول سے ایک روز قبل ہی ایمرجنسی میں اسے منظور بھی کر لیا گیا۔

اب بجٹ پیش کرکے سازش ناکام بنانے کا بیانیہ اپنایا گیا ہے جس کی شدومد سے تشہیر کی جارہی ہے، حالانکہ کسی نے سازش کی اور نہ ہی کسی نے حکومت گرانے کی کوشش کی۔ بلکہ بجٹ پیش نہ کرنے اور بعد ازاں اسے منظور نہ کرنے کے بیانات حکومتی کارپردازوں کی جانب سے دیے گئے، جس پر اپوزیشن نے حکومت کو تنبیہ کی کہ بجٹ منظور نہ کرنے کی صورت میں ان کی حکومت کا خاتمہ ممکن ہے۔

بانی کی منظوری، مائنس بیانیہ اور سیاسی تماشہ

بقول گورنر فیصل کریم کنڈی حکومت نے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہاتھ سے نکلتی دیکھ کر پارلیمانی روایات کے برعکس بجٹ کی منظوری دے دی۔ بجٹ پیش کرنے سے قبل اسمبلی توڑنے اور حکومت کو خیرباد کہنے کی خبریں پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع سے ہی سامنے آئیں۔ اب حیرت انگیز طور پر اپوزیشن اور وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے اور یہ تاثر ابھارنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ وفاقی حکومت، صوبائی اپوزیشن، گورنر اور پارٹی کے کچھ اندرونی حلقے حکومت کے خاتمے کی سازش کر رہے تھے، جس کے تحت پہلے حکومت کو بجٹ پیش کرنے سے روکا گیا اور بعد میں منظوری بھی مشکل بنا دی۔

بجٹ کی منظوری پر علیمہ خان کی جانب سے مائنس عمران خان والا بیان سامنے آیا جس پر اب وزیراعلیٰ سمیت پارٹی کے تمام اکابرین یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ کسی کا باپ بھی عمران خان کو مائنس نہیں کر سکتا۔ مائنس کا بیان بھی خود دیا گیا اور اب اس پر منہ سے جھاگ اڑانے کا سلسلہ بھی ازخود شروع کر دیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ نے ایک ویڈیو پیغام میں نجانے کس کو دھمکی آمیز انداز میں مخاطب کیا اور کہا کہ عمران خان ہماری لاشوں پر مائنس ہوں گے۔ انہوں نے پارٹی کے اندرونی مخالفین کو تنبیہ کی اور حسب سابق بے سروپا الزامات لگائے۔ یہ ناروا سلسلہ تاحال جاری ہے اور تمام قائدین مائنس عمران خان کی مذمت میں تندہی سے مصروف عمل ہو چکے ہیں۔

مشاورت، ملاقاتیں اور بے سود سیاست

اس دوران مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کی جیل میں بانی سے ملاقات ہو گئی جس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بجٹ کی منظوری پر رضامندی کا اظہار کیا ہے حالانکہ بجٹ پیش ہو چکا ہے اور اس کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔ جب یہ سارا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے تو بانی کی رضامندی چہ معنی دارد؟

وزیراعلیٰ بانی سے ملاقات کے لیے درخواست دائر کیے بغیر سپریم کورٹ پہنچ گئے جہاں جسٹس منصور علی شاہ نے انہیں کہا کہ آپ نے غلط دروازہ کھٹکھٹایا ہے، آپ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے رجوع کیجئے۔ وزیراعلیٰ کے اس اقدام کو پبلسٹی اسٹنٹ قرار دیا گیا۔ بجٹ کا اہم معاملہ پارٹی نے خود ہی متنازعہ بنایا، خود ہی اس پر بیان بازی کا سلسلہ شروع کیا اور خود ہی اسے پیش اور منظور بھی کر لیا۔ اب خود کو خود ہی داد دی جا رہی ہے کہ بجٹ پیش اور منظور کرکے حکومت نے تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔

عوامی ردعمل، عدالتی فیصلہ اور قدرتی آفات

درحقیقت پی ٹی آئی اپنی اندرونی لڑائیوں، حکومت پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات اور حکومت کی الٹی سیدھی حرکات کے سبب غیر مقبول ہو رہی ہے۔ حکومتی نااہلی اور ناقص کارکردگی کو ان شعبدہ بازیوں کے ذریعے چھپانے کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں۔ بجٹ پر اگر عمران خان کی رضامندی یا ان کی تجاویز ضروری تھیں تو آئے روز ان کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں عمران خان کے ساتھ پارٹی راہنماؤں کی ہزاروں ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ وزیراعلیٰ عید والی رات بھی گھنٹوں پر محیط ملاقات کر چکے ہیں، ان ملاقاتوں میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے بجٹ پر مشاورت کر لی جاتی۔

درحقیقت بجٹ پر بانی پی ٹی آئی اور ان کے ہمنوا وفاق کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے خواہاں تھے۔ ابتدا میں ان کا خیال تھا کہ بجٹ پیش نہ کرنے سے آئی ایم ایف پروگرام ڈی ریل ہو گا۔ مگر حکومت ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر پہلے خَواس باختگی کے عالم میں بجٹ پیش کیا گیا اور بعد ازاں اسی حالت میں منظور بھی کر لیا گیا۔

بجٹ منظوری کے طریقۂ کار کو اپوزیشن ارکان کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بجٹ کے خلاف ملازمین نے صوبائی اسمبلی کے سامنے مظاہرہ کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں صرف دس فیصد اضافہ ناکافی ہے۔ وفاق کے طرز پر ڈسپیریٹی الاؤنس دیا جائے اور کم از کم اجرت 50 ہزار روپے مقرر کی جائے۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے مظاہرین سے اظہار یکجہتی کیا اور یقین دہانی کروائی کہ وہ ان کے مطالبات اسمبلی فلور پر اٹھائیں گے۔ خیبر روڈ کھولنے سے انکار پر پولیس نے آنسو گیس شیلنگ کی جس پر مظاہرین منتشر ہو گئے۔

سپریم کورٹ آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ سنا دیا ہے، جس کے تحت تحریک انصاف یا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئے ہیں۔

صوبے میں مون سون کی بارشیں شروع ہو چکی ہیں، سیلابی ریلوں نے مختلف علاقوں میں تباہی مچائی ہے۔ سوات میں پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے 19 افراد سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے جن میں سے 3 کو بچا لیا گیا ہے، 11 کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جبکہ پانچ افراد کی تلاش جاری ہے۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

خیبرپختونخوا راؤنڈ اپ

Shopping Basket