Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, July 10, 2025

کیا گنڈاپور حکومت خطرے میں ہے؟

کیا گنڈاپور حکومت خطرے میں ہے؟

جب سے سپریم کورٹ آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں کا نظرثانی فیصلہ جاری کیا ہے تب سے خیبرپختونخوا میں حکومت کی تبدیلی بارے افواہیں تسلسل سے پھیل رہی ہیں۔ اس سلسلے میں صوبائی اسمبلی کی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن اور گورنر فیصل کریم کنڈی کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ کی جانب سے متعدد بار دعویٰ کیا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد صوبائی اسمبلی میں حکومتی جماعت اکثریت کا اعتماد کھو چکی ہے اور اب ارکان کی اکثریت ہمارے پاس ہے۔ جبکہ گورنر اور وزیراعلیٰ کے درمیان چپقلش گزشتہ سال ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ دونوں اعلیٰ عہدیدار اکثر و بیشتر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے دل کا بھڑاس نکالتے ہیں۔ اس سلسلے میں کبھی کبھار شدت بھی آ جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ نے پختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں گورنر انیکسی سے گورنر کو بے دخل کیا اور یہ حصہ تحریک انصاف کے ارکان پارلیمان کو دیدیا گیا جبکہ ان کی جانب سے ایسے بیانات بھی سامنے آئے کہ وہ گورنر ہاؤس سے بھی فیصل کریم کنڈی کو بے دخل کر سکتے ہیں، ان کے فنڈز بند کیے جائیں گے، انہیں پٹرول کے لیے پیسے نہیں دیے جائیں گے یا اس طرح کے دیگر ان گنت بڑھک نما بیانات جاری ہوتے رہتے ہیں جس سے دونوں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے روایتی حریف ہیں اور ایک دوسرے کی صورتیں دیکھنے کے بھی روادار نہیں۔

مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ آئینی بنچ نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے تحت سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حقدار نہیں۔ جس کے بعد صوبائی اسمبلی کی 25 مخصوص نشستیں اسمبلی میں موجود دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ جس پر اپوزیشن جماعتیں آپس میں بھی دست و گریباں ہیں اور تاحال تین جماعتیں پی ٹی آئی پارلمنٹیرینز، اے این پی اور مسلم لیگ ن پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کر چکی ہیں کہ ہمیں مخصوص نشستوں میں حصہ بقدر جثہ نہیں ملا۔ عام انتخابات کے بعد جب مخصوص نشستیں اپوزیشن کو الاٹ کرنے کی باری آئی تو اے این پی کو اس کی جیتی ہوئی ایک نشست پر ایک مخصوص نشست جبکہ پی ٹی آئی پی کو دو نشستوں پر ایک نشست دے دی گئی۔ ازاں بعد مخصوص نشستوں کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا جہاں سے فیصلہ خلاف آنے پر بات سپریم کورٹ تک پہنچی۔ سپریم کورٹ آئینی بنچ کا فیصلہ آنے پر اے این پی نے دو نشستوں پر دو مخصوص نشستوں کے دعوے کے لیے جبکہ پی ٹی آئی پی نے ایک نشست کی جگہ دو نشستوں کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیا بعد میں یہ درخواستیں واپس لے لی گئیں۔ مگر اب مسلم لیگ ن نے کم نشستیں ملنے پر ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ ن لیگ کا مؤقف ہے کہ اسے سات نشستوں پر آٹھ مخصوص نشستیں دی گئی جبکہ جے یو آئی کو سات نشستوں پر دس نشستیں الاٹ کر دی گئی ہیں۔ نظر بظاہر واقعی یہ کھلا تضاد ہے جب دونوں جماعتوں کے ارکان برابر ہیں تو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے میں اتنا بڑا اور واضح فرق کیونکر ہے؟ اس معاملے پر ہائیکورٹ سے کیا جواب ملتا ہے یا الیکشن کمیشن سے کیا توجیح پیش کی جاتی ہے یہ تو چند دن میں واضح ہو جائے گا۔

مگر مخصوص نشستیں اپوزیشن کو الاٹ ہونے سے اس کے ارکان کی تعداد 27 سے بڑھ کر 52 ہو گئی۔ یعنی 145 رکنی ایوان میں اسے حکومت گرانے کیلئے مزید 21 ارکان کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے 58 ارکان سنی اتحاد کونسل کا حصہ بن چکے ہیں جبکہ 35 کے لگ بھگ ارکان نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرنے کی بجائے آزاد رہنا مناسب سمجھا۔ ان 35 ارکان میں بعض تو صوبائی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہیں مگر اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان میں بیشتر کی وفاداری اس کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کا یہ دعویٰ فی الحال تو بے وقت کی راگنی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ اپوزیشن کے پاس تاحال صرف 27 ارکان ہیں۔ مخصوص نشستیں اگرچہ الیکشن کمیشن نے تو الاٹ کر دی ہیں مگر ان ارکان نے تاحال حلف نہیں اٹھایا کیونکہ یکم جولائی کو ہونے والا اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کیا جا چکا ہے جس کا مقصد ہی یہی ہے کہ اپوزیشن کے ارکان حلف نہ اٹھا سکیں۔ مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے پر اپوزیشن کو طاقت کا انجکشن لگ چکا ہے اور اس کے ارکان بیٹھے بٹھائے دوگنے ہو گئے ہیں مگر اس کے باوجود یہ حکومت گرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس مقصد کیلئے مزید 21 ارکان درکار ہونگے جبکہ اپوزیشن کی اپنی صفوں میں بھی اتحاد کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کو جیل میں پیغام بھجوایا ہے کہ وہ ان کی حکومت گرانے میں تعاون نہیں کریں گے۔ اسی طرح اے این پی نے بھی غیر آئینی طریقے یا ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے حکومت گرانے سے خود کو دور رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ بلکہ اے این پی کے سینئر راہنما اور سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی سے منسوب بیان سامنے آیا ہے کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں اور اپنی پارٹی کو یہ نشست لینے سے انکار کا مشورہ دیا گیا ہے۔ جے یو آئی کے پاس 19 جبکہ اے این پی کے پاس 3 ارکان ہیں۔ اپوزیشن اگر ان 22 ارکان کو ساتھ ملانے میں ناکام رہتی ہے تو حکومت گرانا اس کے بس سے باہر ہو جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی میں بھی بغاوت کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ آزاد ارکان سمیت سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرنے والے ارکان متحد نظر آ رہے ہیں۔ گنڈاپور حکومت گرانے میں اپوزیشن بذات خود متحد نہیں تو یہ حکومتی ارکان کو کیا ساتھ ملا سکے گی؟

دوسرے مولانا فضل الرحمان نے بھی اگر عمران خان کو از خود یقین دہانی کروائی ہے تو اس کے بھی کئی پہلو ہو سکتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں حکومتی ارکان کے اتحاد اور اپوزیشن کے انتشار سے واضح ہو رہا ہے کہ فی الحال گنڈاپور حکومت کو کم از کم صوبائی اپوزیشن سے کوئی سنجیدہ خطرہ لاحق نہیں اسی لئے علی امین گنڈاپور بھی پراعتماد انداز میں اپوزیشن اور گورنر کو چیلنج کر رہے ہیں بلکہ وفاق کو بھی رگید رہے ہیں کہ “کسی میں دم نہیں جو میری حکومت گرا سکے”۔ صوبائی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن تو واضح ہے مگر 21 جولائی کو شیڈول سینیٹ انتخابات سے مزید واضح ہو جائے گا کہ کس کو کتنے ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ ویسے تو ارکان سلپ ہونے کے حوالے سے پی ٹی آئی کا سابقہ ریکارڈ خاصا خراب ہے۔ 2018 سینیٹ انتخابات میں اس کے 22 ارکان پر ووٹ فروخت کرنے کا اجتماعی الزام لگا تھا۔ 21 جولائی کو ممکنہ سینیٹ انتخابات گنڈاپور حکومت کیلئے لٹمس پیپر ہے۔ اگر پی ٹی آئی ارکان 2018ء والی تاریخ دہراتے ہیں تو اس سے یقیناً گنڈاپور حکومت خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اور اگر وہ اپنے ارکان کو متحد رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو حکومت کو بھی کوئی خطرہ درپیش نہیں۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

کیا گنڈاپور حکومت خطرے میں ہے؟

Shopping Basket