عقیل یوسفزئی
باجوڑ کے تحصیل ماموند میں گزشتہ روز سیکیورٹی فورسز اور کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجووں کے درمیان شدید نوعیت کی جھڑپوں کے نتیجے میں اہم طالبان کمانڈر سمیت متعدد دیگر کی ہلاکتوں اور فورسز کے نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئیں جبکہ دوسری جانب افغانستان کی عبوری حکومت کو اسی روز اس وقت ایک بڑا دھچکا لگا جب عالمی فوجداری عدالت (ICC) نے افغان طالبان کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کی پاداش میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں تین مختلف علاقوں میں فورسز اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان گزشتہ روز کئی گھنٹوں تک شدید نوعیت کی جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں فریقین کو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان پہنچا۔ ممتاز صحافی مشتاق یوسفزئی کے مطابق تحصیل ماموند میں ایف سی کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس کے بعد فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں دوسروں کے علاؤہ سوات کے پیوچار کیمپ کے اہم سابق کمانڈر غزوان سواتی کے بیٹے سیف اللہ سمیت متعدد دیگر ہلاک ہوئے۔ ان کے بقول طالبان کے ایک گروپ نے نہ صرف ایف سی پر حملہ کیا بلکہ اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر گاڑی کو نذرِ آتش بھی کردیا۔
کالعدم ٹی ٹی پی نے بھی رسمی طور پر ان جھڑپوں کے دوران سیف اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی ایک تصویر بھی جاری کردی ہے ۔ اگر چہ تاحال کسی متعلقہ حکومتی ادارے نے ان جھڑپوں کی اطلاعات سے متعلق تفصیلات شیئر نہیں کی ہیں تاہم آزاد ذرائع اور میڈیا کے مطابق جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق تین مختلف مقامات پر شدید جھڑپیں ہوئی ہیں اور تاحال مذکورہ علاقوں میں سرچ آپریشن جاری ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق آپریشن میں فورسز کی جانب سے ہیلی کاپٹر بھی استعمال کئے گئے جبکہ کالعدم ٹی ٹی پی کے میڈیا سیل نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے فورسز کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ بعض ذرائع نے یہ بھی کہا ہے کہ ان جھڑپوں کے دوران طالبان نے کواڈ کاپٹرز اور دیگر جدید ہتھیار بھی استعمال کئے ہیں۔
اسی تناظر میں باجوڑ سے رکن صوبائی اسمبلی نثار باز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مذکورہ جھڑپوں کے دوران عوام میں شدید خوف و ہراس پھیلا اور پورا تحصیل ماموند میدان جنگ کا نقشہ پیش کرتا رہا ۔ انہوں نے اپنے بیان میں دیگر تجاویز کے علاوہ مطالبہ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
دوسری جانب عالمی فوجداری عدالت (ICC ) نے انسانی حقوق کی پامالیوں ، خواتین کی ملازمت ، بچیوں کی تعلیم پر پابندیوں کی پاداش میں افغان طالبان کے سربراہ ( امیر المومنین ) مولوی ہیبت اللہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبد الحکیم حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں جس پر ردعمل دکھاتے ہوئے افغان عبوری حکومت اور افغان طالبان نے موقف اختیار کیا ہے کہ کسی بھی فورم یا عدالت کو اس قسم کی کارروائی یا مداخلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ان کے بقول ایسی عدالتوں کو گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کے ان مظالم کا نوٹس لینا چاہیے تھا جو کہ افغانستان اور متعدد دیگر ممالک میں ان کی مداخلت کے نتیجے میں لاکھوں افراد کی ہلاکتوں کی صورت میں سامنے آتے رہے ہیں۔
ماہرین اس فیصلے کو افغان عبوری حکومت کے لیے بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں تاہم اس کا افغان عبوری حکومت کی حیثیت اور اہمیت پر کیا اثر پڑے گا اس بارے میں تاحال تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔
