Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, July 27, 2025

سانحہ سوات پر احتیاط کی ضرورت

عقیل یوسفزئی
سوات کے علاقے چالیار ( خوازہ خیلہ) میں واقع ایک مدرسے میں 12 سالہ کم عمر بچے پر ایک استاد اور ان کے دیگر ساتھیوں کی جانب سے ہونے والے سفاکانہ تشدد اور اس کے نتیجے میں بچے کی شہادت کے واقعے نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے تاہم اس معاملے پر بھی بعض حلقوں کی جانب سے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ جاری ہے جو کہ افسوس ناک بات ہے ۔ اس واقعے نے خیبر پختونخوا کے سافٹ امیج اور پورے سماجی ڈھانچے کو سخت نقصان پہنچایا ہے ۔ گزشتہ مہینے اسی سوات میں فضا گٹ کے مقام پر 15 سے زائد سیاحوں کے ڈوبنے کے واقعے کے اثرات سے سوات اور پورا خیبرپختونخوا نکلا ہی نہیں تھا کہ یہ افسوسناک واقعہ سامنے آیا ۔
اس سے ایک سال قبل مدین میں ایک سیاح کو توہین قرآن کے الزام میں عوامی ہجوم نے نہ صرف بے دردی سے قتل کیا تھا بلکہ اس کے جسم کو نذرِ آتش بھی کردیا تھا ۔ اس واقعے کی حکومتی انکوائری پر کتنا عمل درآمد ہوا اس بارے کسی کو کوئی علم نہیں ہے ۔ اس قسم کے رویوں ہی کا نتیجہ ہے کہ جرائم پیشہ اور پرتشدد عناصر کسی قانون یا خوف کو خاطر میں نہیں لاتے اور پورا صوبہ عملاً ” شہر ناپرسان” کا نقشہ پیش کررہا ہے ۔
وفاق المدارس اور خیبرپختونخوا کے چیف خطیب مولانا طیب قریشی سمیت جید علماء نے اس واقعے کی کھل کر مذمت کی ہے جبکہ پولیس نے قاتل استاد کے ایک بیٹے سمیت متعدد دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا ہے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ اس واقعے کی آڑ میں نہ صرف مدارس کو ٹارگٹ کرنے کا رویہ اختیار کیا گیا ہے بلکہ مذہب کو بھی غیر ضروری طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور عوام کو تشدد پر اکسانے کی کوشش بھی جاری ہے حالانکہ اس قسم کے سفاکانہ واقعات جدید تعلیمی اداروں میں بھی ہوتے آرہے ہیں ، اس ضمن میں خیبرپختونخوا کے مختلف جدید تعلیمی اداروں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں جہاں بچے تو ایک طرف بچیوں کو اساتذہ اور دیگر کی جانب سے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین ، اساتذہ ، مدارس ، تعلیمی ادارے اور حکومتی ادارے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں اور معاشرے میں جاری تشدد کا ہر سطح پر نوٹس لیا جائے ۔

سانحہ سوات پر احتیاط کی ضرورت

Shopping Basket