عقیل یوسفزئی
خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی تاہم بعض سیاسی جماعتوں اور مختلف علاقوں کے مقامی جرگوں کے ذریعے کوشش کی جارہی ہے کہ باجوڑ ، خیبر سمیت متعدد دیگر شورش زدہ علاقوں میں حملہ آور گروپوں اور سیکورٹی اداروں کے درمیان رابطہ کاری کرکے مجوزہ فوجی آپریشنز سے ان علاقوں کو بچایا جاسکے ۔ گزشتہ دنوں وادی تیراہ میں ایک مقامی جرگے نے کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈرز کے پاس جاکر ان سے ” درخواست” کی وہ علاقے سے نکل جائیں تاہم دوسری جانب یہ کہہ کر مہلت مانگی گئی کہ وہ افغانستان میں موجود اپنی قیادت کے ساتھ مشورہ کرکے جواب دیں گے ۔ اسی تسلسل میں گزشتہ دو تین دنوں کے دوران باجوڑ میں بھی ایک جرگے کے ذریعے وہاں کے طالبان کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ یا تو علاقہ خالی کریں یا افغانستان چلے جائیں مگر دو دنوں کے طویل مذاکرات کے بعد یہ تجویز مسترد کردی گئی ۔ جرگہ ممبران کے مطابق اس سلسلے میں اتوار کی سہ پہر کو پھر سے ملٹری حکام اور طالبان سے مذاکرات کیے جائیں گے ۔ ایسے ہی جرگوں کا انعقاد ہنگو ، وزیرستان اور بعض دیگر علاقوں میں کیا گیا مگر امن کی جانب عملاً کوئی پیشرفت نہ ہوسکی ۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں بھی ضلع خیبر کے عمائدین اور حکومت پر مشتمل ایک سرکاری جرگے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے خود کی تاہم اس بارے بھی کوئی موثر لایحہ عمل یا مثبت رسپانس دکھائی نہیں دیا ۔ ان تمام کوششوں نے صورتحال کو کافی پیچیدہ کردیا ہے کیونکہ ملٹری اسٹبلشمنٹ تو تعاون کررہی ہے مگر کالعدم گروپ لچک نہیں دکھارہے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ مجوزہ فوجی آپریشنز کے تناظر میں سیاسی جماعتیں مزاحمت اور مخالفت کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔
اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ اگر مسلح گروپ مزاحمت سے باز نہیں آتے یا علاقہ چھوڑنے کا آپشن بھی استعمال نہیں کررہے تو ریاست کے پاس دوسرے آپشنز کیا ہیں ؟
کالعدم ٹی ٹی پی نے گزشتہ روز ماہ جولائی کے دوران کیے گئے اپنے حملوں کی تفصیلات جاری کی ہیں ۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ صرف ایک مہینے کے دوران ٹی ٹی پی نے 360 حملوں میں 415 افراد ( زیادہ تر سیکیورٹی اہلکار ) کو نشانہ بنایا ہے ۔ ان کارروائیوں کے دوران 90 فی صد حملے خیبرپختونخوا میں کیے گئے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خیبرپختونخوا پوری طرح میدان جنگ میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے مگر دوسری جانب سے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان کوئی ہم آہنگی یا صف بندی دکھائی نہیں دے رہی ہیں ۔
اس صورتحال پر مختلف قائدین اور ماہرین تشویش کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔قومی وطن پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان سے جب ان کی آراء معلوم کی گئی تو انہوں نے کہا
” حالات کافی تشویش ناک اور پیچیدہ ہوگئے ہیں مگر ہمیں قیام امن کے لیے سنجیدہ حکومتی کوششیں نظر نہیں آتیں ۔ صوبائی حکومت کی توجہ امن کے قیام سے زیادہ دلچسپی اپنے بانی کی رہائی پر مرکوز ہے حالانکہ عوام کو سیکیورٹی فراہم کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک تو واضح پالیسی اختیار کی جائے ، دوسرا یہ کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بناکر افغان طالبان کی حمایت حاصل کی جائے ” ۔
ممتاز تجزیہ کار عمار مسعود کے بقول خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے امن کے لئے فیصلہ کن ریاستی اور سیاسی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں ، خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت کی کوئی کاؤنٹر ٹیررازم پالیسی نہیں ہے جس کے باعث حالات دن بدن خراب ہوتے گئے اور عوام کو شدید مشکلات اور تحفظات کا سامنا ہے ۔ ان کے مطابق وفاقی حکومت ، ملٹری اسٹبلشمنٹ اور صوبائی حکومتوں کو مل کر کوئی جامع پلان اپنانا ہوگا کیونکہ ان دو صوبوں کے امن کے ساتھ متعدد ملکی اور علاقائی پراجیکٹس کا مستقبل بھی جڑا ہوا ہے ۔
( 3 اگست 2025 )
