Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, October 1, 2025

نازک مزاجی کہ طاقت کا غرور؟

یہ بات قابل افسوس ہے کہ اگر ایک طرف پی ٹی آئی ریاست مخالف پروپیگنڈا میں مصروف عمل ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت صوبے میں مین سٹریم میڈیا کے ان آوازوں کو دبانے کی ہر ممکن کوشش میں لگی ہوئی ہے جو کہ اس حکومت کے ” سیاہ کارناموں” کو پیشہ ورانہ زمہ داریوں کے تناظر میں بے نقاب کرتی ہیں ۔
مین سٹریم میڈیا کے ساتھ اس حکومت اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کا رویہ اس کی پہلی حکومت کے دور سے بہت جارحانہ چلا آرہا ہے تاہم علی امین گنڈا پور کی زیر قیادت موجودہ حکومت نے تمام سابقہ ریکارڈز توڑ دیے ہیں ۔ اگر ایک جانب وزیر اعلیٰ کے بھائی اور رکن قومی اسمبلی فیصل آمین گنڈاپور نے تو سیاست دانوں اور صحافیوں کو ” ہتک عزت ” کے نوٹسز کا ریکارڈ قائم کیا ہے تو دوسری جانب خیبرپختونخوا کی بے لگام بیوروکریسی بھی اپنی نازک مزاجی کے باعث کسی بھی بات کو بہانہ بناکر دوسرے اقدامات کے علاوہ قانونی چارہ جوئی پر اتر آتی ہے ۔
کمال بلکہ منافقت کی بات یہ ہے کہ جس ” پیکا ایکٹ” کو پی ٹی آئی مرکزی اور سیاسی سطح پر کھل کر مخالفت کرتی آرہی ہے اسی پیکا ایکٹ کو بیوروکریٹس کے ذریعے خیبرپختونخوا کے اندر صحافیوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے ۔
کچھ عرصہ قبل باصلاحیت صحافی اور پشاور پریس کلب کے نائب صدر عرفان خان کو خلاف ایک صوبائی سیکرٹری نے پیکا ایکٹ کے تحت نوٹس جاری کیا تو اس پر صحافیوں کا شدید ردعمل سامنے آیا تاہم اسی دوران کمشنر پشاور ریاض محسود نے سینئر صحافیوں عقیل یوسفزئی اور ظاہر شاہ شیرازی سمیت ایک معتبر ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کے معتدد دیگر سٹاف ممبرز کو ہتک عزت کے نوٹسز جاری کئے جس پر ادارے نے وضاحت بھی پیش کی ۔
عرفان خان کا معاملہ زیرِ بحث تھا کہ کمشنر پشاور ریاض محسود نے ” بھی کمال بہادری” کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ روز عقیل یوسفزئی ، ظاہر شاہ شیرازی ، ساجد ٹکر ، سلمان یوسفزئی اور خاتون میزبان انعم ملک کو ” پیکا ایکٹ” کے تحت نوٹس جاری کیے جس پر معتبر صحافیوں کے علاؤہ خیبر یونین آف جرنلسٹس اور دیگر اہم تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ۔ اس سے قبل نوجوان وکیل طارق افغان کو بھی اسی ایکٹ کے تحت نوٹس جاری کیا گیا تھا جس کو پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا ۔
ذرائع کے اس تمام ” مہم جوئی” کو وزیر اعلیٰ گنڈاپور ، فیصل آمین گنڈاپور ، چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ اور کمشنر پشاور کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اور اس مہم جوئی کا مقصد ان صحافیوں اور میڈیا اداروں کو دباؤ میں لاکر چھپ کرانا ہے جو کہ موجودہ صوبائی حکومت پر دلایل ، معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر تنقید یا تبصرے کرتے آرہے ہیں ۔
یہ صورت حال اس حوالے سے قابل تشویش ہے کہ مذکورہ صحافی ، تجزیہ کار ، ماہرین اور میڈیا پلیٹ فارمز دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ کے تناظر نہ صرف ریاست اور عوام کا مقدمہ پیش کرتے آرہے ہیں بلکہ ان کو حملہ اور گروپوں کی جانب سے مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم صوبائی حکومت ان صحافیوں اور میڈیا اداروں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے خود ان پر حملہ آور ہونے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ یہ اس جانب واضح اشارہ ہے کہ ” فریقین” نے صحافیوں کے خلاف اتحاد کررکھا ہے ۔
( 26 ستمبر 2025 )

نازک مزاجی کہ طاقت کا غرور؟

Shopping Basket