Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, October 1, 2025

10 مئی کی شکست کھیل پر بھی اثرانداز؟

عقیل یوسفزئی
دبئی میں منعقدہ کرکٹ کے ایشیا کپ کے فائنل میں اس وقت کرکٹ کی تاریخ کی تلخ ترین ” بری مثال” قائم کی گئی جب ایک سخت مقابلے کے بعد پاکستان سے بھارت کی جیت کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ اور ٹیم نے پولیٹیکل پوائنٹ کرتے ہوئے ایشیا کرکٹ کونسل کے چیئرمین محسن نقوی سے اپنی ٹرافی لینے سے انکار کردیا ۔ یہ ہر کسی کے لیے ایک ناقابل یقین فیصلہ تھا کیونکہ طریقہ کار کے مطابق چیئرمین کی حیثیت سے محسن نقوی ہی نے یہ ٹرافی دینے تھی ۔ محسن نقوی اور انتظامیہ نے اس رویے کا نوٹس لیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اگر ٹرافی دی جائے گی تو چیئرمین ہی کے ہاتھوں دی جاسکتی ہے جبکہ یو اے ای کی وزارت کھیل اور وزارت داخلہ نے بھی رپورٹس کے مطابق بھارتی بائیکاٹ کا بہت برا مناتے ہوئے وزراء کی سطح پر مداخلت کی مگر بھارتی حکام غالباً دہلی کی ہدایات کو فالو کررہے تھے اس لیے انہوں نے نہ صرف خود اور اپنے کھلاڑیوں کو ٹرافی کی خوشی اور تقریب سے محروم رکھا بلکہ دنیا بھر میں خود کو سپورٹس اسپرٹ کی آئیڈیالوجی سے باغی قرار دینے کا موقع بھی فراہم کیا ۔
ایشین کرکٹ کونسل نے دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کو ایوارڈز وغیرہ دے کر اپنی ذمہ داری تو پوری کردی تاہم بھارت کو اس وقت سخت دھچکا لگا جب ” ٹرافی” کو کسی دوسرے طریقے سے دینے کی بجائے انتظامیہ اپنے دفتر لے گئی ۔
غالباً کرکٹ تو کیا اسپورٹس کی دستیاب تاریخ میں یہ ” ڈرامہ ” پہلی بار ٹی وی چینلز کے ذریعے دنیا کو دیکھنے کو ملا جس پر پاکستان تو کیا دنیا بھر کے اسپورٹس فینز اور کھلاڑیوں کی جانب سے سخت تنقید اور ناپسندیدگی کا اظہار دیکھنے کو ملا ۔ اسی ایونٹ کے دوران بھارتی حکام اور ٹیم کو انہی حلقوں کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ہاتھ نہ ملانے کے معاملے پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر بھارتی اپنی انتہا پسندی اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہے ۔ کمینٹیٹرز اور میڈیا کے علاؤہ متعدد شہرت یافتہ سابق بھارتی کھلاڑیوں نے بھی اس رویے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اگر بھارت نے یہ سب کچھ کرنا تھا تو اس کی ٹیم اگر اس ایونٹ کا بائیکاٹ ہی کرتی تو وہ زیادہ مناسب راستہ ہوتا ۔
فائنل جیتنے کے بعد جہاں یہ حرکت کی گئی وہاں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے کھیل کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کی جس میں انہوں نے مبارک باد دینے سے زیادہ یہ لکھ کر اپنی ” فرسٹریشن” نکالنے کا گھٹیا حربہ اختیار کیا کہ ” آپریشن سندور کھیل کے میدان میں بھی جاری ہے” ۔
یہ بات پوری دنیا کو معلوم ہوچکی ہے کہ 10 مئی کو مذکورہ ” آپریشن سندور” کا کیا حشر نشر کیا گیا اور جوابی کارروائی کے بعد آج بھارت کہاں کھڑا ہے ۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ خود کو بڑی جمہوریت اور بڑی ریاست قرار دینے والے بھارت نے کرکٹ اور سپورٹس کو بھی متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
بی جے پی نے ایک اور بڑی ” بدنامی” اپنے نام کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ بی جے پی ریاستی سطح پر منافرت اور کشیدگی بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس کی انتہا پسندانہ نظریات اور ریاستی پالیسیوں نے بھارت کی نام نہاد ڈیموکریسی اور سافٹ امیج کو سنگین خطرے سے دوچار کردیا ہے جس پر سب سے زیادہ آوازیں بھارت کے اندر سے اٹھتی دکھائی دیتی ہیں ۔

10 مئی کی شکست کھیل پر بھی اثرانداز؟

Shopping Basket