عقیل یوسفزئی
سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خاتمے کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت سے مشروط کرتے ہوئے اپنے اس مذاکراتی کا دفاع کیا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں طالبان یا دہشت گردوں کو پاکستان واپس لایا گیا ۔
اپنی ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی تفصیلات میں انہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے قبائلی علاقوں میں امن قائم کیا تاہم موجودہ ریاستی قیادت نے طالبان کی پاکستان دوست افغان حکومت کو دھمکیاں دیں ، مہاجرین کو زبردستی نکالا اور افغانستان میں ڈرون حملے کئے جس کے باعث نہ صرف پاک افغان تعلقات خراب ہوگئے بلکہ آپریشن کرکے خیبرپختونخوا کے امن کو برباد کیا ۔
ان کے اس بیان یا موقف سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ وہ ریاست پاکستان کی بجائے نہ صرف یہ کہ افغانستان کی حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی وغیرہ کی کھل کر حمایت کررہے ہیں بلکہ وہ فورسز کی کارروائیوں اور اقدامات کو بھی تنقید کا نشانہ بنانے کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔
کمال کی بات یہ ہے کہ اپنی لمبی تفصیلات کے مطابق انہوں نے خیبرپختونخوا سمیت ملک میں کی جانے والی دہشت گردی کی مذمّت تک نہیں کی نا ہی انہوں نے اس بات کی کوئی وضاحت پیش کی کہ ان کی خیبرپختونخوا حکومت کی کاؤنٹر ٹیررازم پالیسی ہے کیا اور اگر اس حکومت کے ہوتے ہوئے مختلف علاقوں میں کسی وقفے کے بغیر ٹارگٹڈ آپریشنز جاری ہیں تو صوبائی حکومت کا اس میں کیا اور کتنا رول ہے ؟
عجیب وغریب بات تو یہ بھی ہے کہ جس روز وہ پاکستان کے امن کو مجوزہ مذاکراتی عمل سے مشروط کررہے تھے اس دوران افغان اور عالمی میڈیا میں افغان عبوری حکومت کے قندھاری اور حقانی گروپوں کے شدید اختلافات کی خبریں شیئر ہورہی تھیں اور یہاں تک کہا جارہا تھا کہ سراج الدین حقانی کو ان کی وزارت داخلہ کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے یا ہٹایا جارہاہے ۔ یہ اطلاعات بھی زیر گردش تھیں کہ امریکہ اور بعض دیگر ممالک افغانستان میں رجیم چینج کے ایک فارمولے پر عمل پیرا ہونے جا رہے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کراس بارڈر ٹیررازم کے بنیادی مسئلہ پر خراب ہیں تاہم عمران خان کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ان خراب حالات ، تعلقات کے دوران بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکراتی عمل جاری ہے اور اپریل میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم ، وزیر خارجہ خود کابل گئے تھے ۔ نماندہ خصوصی محمد صادق خان اور دیگر حکام بھی مسلسل دورے اور ملاقاتیں کرتے آرہے ہیں ۔
جہاں تک ان کے اس موقف کا تعلق ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی حالات اس لیے خراب ہوگئے ہیں کہ یہاں آپریشن جاری رہے ہیں یا افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہیں کسی بھی لارجر فریم ورک میں ان دلائل کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ جاری دہشتگردی کے مختلف اسٹیک ہولڈرز ، پراکسیز اور اسباب ہیں ۔ وہ اس پیچیدہ صورتحال کا بہت آسان مگر یکطرفہ حل تجویز کرتے ہیں جو کہ برخلاف حقائق ہیں ۔ جس جانب انہوں نے نشاندھی کی ہے وہ تمام مسایل اور اسباب کا ایک جز ہے کل قطعاً نہیں ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اصل اسباب بھی معلوم کریں ۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ فرسٹریشن کا شکار ہیں اور اس بیانیہ کو وہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ بلکہ بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتے آرہے ہیں ۔
اب تو ان کی پارٹی اور صوبائی حکومت بھی مختلف گروپوں میں تقسیم ہوگئی ہیں اور صوبائی کابینہ بھی توڑ پھوڑ کی صورت حال سے دوچار ہوگئی ہے ۔ ان کے وزیر اعلیٰ نے ان کے ساتھ کی گئی گزشتہ روز کی ملاقات میں یہاں تک کہا ہے کہ ان کی بہن علیمہ خان پارٹی کی قیادت پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور یہ کہ وہ وزیر اعلیٰ کے بقول ریاستی اداروں کی معاونت کررہی ہیں ۔ ایسے میں اگر عمران خان پیچیدہ مسائل پر ریاست مخالف بیانیہ کی بجائے اپنی پارٹی اور صوبائی حکومت کی بیڈ گورننس جیسے ایشوز پر زیادہ توجہ مرکوز کریں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔
( یکم اکتوبر 2025 )
