عقیل یوسفزئی
پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے گزشتہ روز شمالی وزیرستان اور کرم میں کارروائیاں کرتے ہوئے مبینہ طور پر افغانستان سے دراندازی کرنے والے کالعدم ٹی ٹی پی کے 25 اہلکاروں کو ہلاک کردیا ہے جن میں تین چار خودکش حملہ اور بھی شامل ہیں ۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق ان کارروائیوں کے نتیجے میں 5 سیکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے ۔ بیان میں ایک بار پھر افغانستان کی عبوری حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ افغانستان دراندازی اور حملوں میں ملوث گروپوں کا راستہ روکنے میں ناکام رہا ہے اور یہ کہ پاکستان اس ضمن میں افغان عبوری حکومت سے ٹھوس اقدامات کرنے کا مطالبہ اور تقاضا کرتا ہے ورنہ دوسرے آپشنز استعمال کئے جائیں گے ۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے ایک بار پھر ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات ہی جاری بدامنی کا مناسب اور واحد راستہ ہے ۔ ان کے بقول فوجی آپریشنز نتائج دینے میں ناکام رہے ہیں اس لیے صوبائی حکومت فوجی آپریشنز کی اجازت نہیں دے گی ۔ وزیر اعلیٰ نے وفاقی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کو اس کے حقوق اور فنڈز نہیں دیے جارہے جس کے اثرات انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر پڑررہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کے بقول صوبائی حکومت بہت جلد ایک گرینڈ جرگہ بلانے کا اقدام اٹھانے والی ہے تاکہ مذاکرات اور سیکورٹی سے متعلق معاملات پر مشاورت کی جائے ۔ باخبر صحافی عرفان خان نے انکشاف کیا ہے کہ وفاقی حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ نے ضلع خیبر میں باجوڑ طرز پر آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس سلسلے میں خیبر امن جرگہ کے اکثر قائدین کو اعتماد میں لیا گیا ہے ۔
دوسری جانب ترکی کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری مذاکرات کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکلتے نہیں دکھائی دیتا اور محدود رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کراس بارڈر ٹیررازم اور ٹی ٹی پی وغیرہ کے مسایل ہی پر تاحال ڈیڈ لاک موجود ہے ۔
یہ صورتحال کافی پیچیدہ اور کشیدہ ہیں تاہم سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی بدترین بدامنی اور فورسز کی قربانیوں کے باوجود اب بھی اپنے پرانے موقف پر قائم ہے جس کے باعث نہ صرف یہ کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کو بیانیہ کے تناظر میں مشکلات کا سامنا ہے بلکہ عوام فورسز کے ساتھ درکار تعاون سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں ۔
اس صورتحال کا سنجیدہ جائزہ لینا ضروری ہوگیا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک اہم ایونٹ کے طور پہلی فرصت میں صوبائی اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا جائے تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مشاورت کو ممکن بنایا جائے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی عملی کوششوں کا آغاز کیا جائے ۔


