عقیل یوسفزئی
پاکستان اور افغانستان کے غیر لچکدار رویے کے باعث استنبول مذاکرات کی ناکامی نے جہاں ایک طرف دونوں ممالک کی کشیدگی میں مزید اضافہ کردیا ہے وہاں ایران بھی ایک نئے فریق یا ثالث کے طور پر میدان میں اتر آیا ہے ۔ ایران کے وزیر خارجہ نے گزشتہ روز پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فونک رابطے کرکے ان کو مذاکرات جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور پیشکش کی کہ ایران دونوں ممالک کے درمیان مصالحت کے لیے نہ صرف یہ کہ تیار ہے بلکہ اس کی خواہش ہے کہ وہ اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے ایرانی وزیر خارجہ کی پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے ۔ اس پیشرفت کے بعد ایک بار پھر یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ کشیدگی میں اگر مزید کمی نہیں ہوتی تو فی الحال متوقع جنگی صورتحال کی نوبت بھی نہیں آنے دی جائے گی ۔
ایران ثالثی کرنے والے باقی دو ممالک یعنی قطر اور ترکی کے مقابلے میں اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے وہ جاری علاقائی کشیدگی کا ایک متاثرہ فریق رہا ہے اور اس تمام تر پس منظر میں اس کا ایک ” کھلاڑی” کی حیثیت سے مرکزی کردار رہا ہے ۔
اس ضمن میں اسی روز پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان نے پاکستان کے ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کے باوجود کراس بارڈر ٹیررازم کے معاملے پر اپنی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کی جس کے باعث نہ صرف یہ کہ مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے بلکہ افغانستان کے رویے پر قطر اور ترکی کی ناراضگی بھی نوٹ کی گئی ۔
اسی دوران افغان عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللّٰہ مجاہد نے وہی پرانی کہانی سناتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی کے خلاف استعمال نہیں ہورہی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان ان قبائلی شہریوں کی میزبانی کررہا ہے جو کہ امارات اسلامیہ کی حکومت کے قیام سے قبل فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں افغانستان منتقل ہوگئے تھے ۔
ان کا یہ بیانیہ اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ کراس بارڈر ٹیررازم پر پاکستان کا موقف درست ہے ۔
اس صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے نامور اینکر پرسن ، صحافی حامد میر نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کبھی مثالی نہیں رہے تاہم اب کے بار افغانستان کو یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ اس کشیدگی سے ” اکھنڈ بھارت” کی داعی بھارتی حکومت فایدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے جس کے خود افغانستان کے لیے منفی نتائج برآمد ہوں گے ۔ ان کے بقول ماضی کی تلخیوں پر بحث کی بجائے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے ۔


