Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, November 26, 2025

ثقافت کو درپیش چیلنجز

عقیل یوسفزئی
جاری بدامنی نے اگر ایک طرف پاکستان بلخصوص خیبر پختونخوا کے سیاسی ، سماجی اور ثقافتی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کرکے رکھ دیا ہے ۔ ہم عموماً اس بدامنی یا جنگ کے عسکری اور سیاسی اثرات پر بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر جاری صورتحال نے نہ صرف یہ کہ نسلوں کو متاثر کیا بلکہ ہمارے سماجی ڈھانچے کو بھی ہلاکر رکھ دیا ہے ۔
مثال کے طور پر خیبر پختونخوا بشمول پشاور میں سنیما گھروں کی مسماری کے عمل کو پیش کیا جاسکتا ہے جس پر کوئی بھی بات کرتے دکھائی نہیں دیتا ۔ گزشتہ ایک دہائی میں صرف پشاور میں تقریباً 10 سنیما گھروں کو مسمار کرکے کمرشل پلازے بنائے گئے ۔ یہی صورتحال مردان ، سوات ، ایبٹ آباد اور متعدد دیگر شہروں میں بھی دیکھنے کو ملی ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ چند ہفتوں کے دوران پشاور میں مزید دو سنیما گھروں کو مسمار کیا جائے گا ۔ عالمی قوانین کے تحت اگر کسی سنیما کو مسمار کیا جاتا ہے تو اس احاطے میں بننے والی عمارت میں سنیما گھر قائم کیا جائے گا مگر پاکستان میں اس قانون کو کوئی فالو نہیں کرتا ۔ یہ دلیل بہت ” فرسودہ” ہے کہ سنیما گھر اس لیے ختم ہو رہے ہیں کہ اچھی فلمیں نہیں بنتیں ۔ یہ کہانی کا ایک جز ہے ۔ اسی طرح نشتر ہال پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے کسی ہال میں کوئی ثقافتی سرگرمی ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتی ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اس جمود کو توڑنے کی عملی کوشش کی جائے ۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے سیکٹری سیاحت ، ثقافت اور آثار قدیمہ ڈاکٹر عبد الصمد خان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کو قدرت نے مثالی ثقافتی اور تاریخی ورثے سے نوازا ہے اب کوشش کی جارہی ہے کہ نہ صرف نئے سنیما گھر بنانے والوں کی حکومتی سرپرستی کی جائے بلکہ نشتر ہال سمیت دیگر پلیٹ فارمز کو فنکاروں اور تخلیق کاروں کے لیے حکومتی سرپرستی میں دستیاب بنایا جائے ۔ انکے بقول انہوں نے گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان میں نئے عجائب گھر کا افتتاح کیا جبکہ متعدد عجائب گھروں کی آپ گریڈیشن کی گئی ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پشاور میں موجود دلیپ کمار اور راج کپور کے گھروں کو قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے ان گھروں کو محفوظ بنانے کے کام کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے اور مزید متعدد منصوبے زیر تکمیل ہیں۔
سنیما گھروں کی مسماری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نامور اداکار ، ڈایریکٹر ارشد حسین نے کہا ہے کہ اگر ایک طرف جاری بدامنی نے سنیما گھروں سمیت تمام ثقافتی مراکز کو بری طرح متاثر کیا تو دوسری جانب حکومتی عدم توجہی اور انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کے منفی کردار نے بھی پشتو فلم ، ڈرامے اور تھیٹر کو برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔ ان کے بقول صوبے میں چند برس قبل تک سرے سے کوئی کلچر پالیسی ہی نہیں تھی ۔ پالیسی بنائی گئی تو اب اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا کیونکہ یہ حکومت کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں ہے ۔
سینئر صحافی امجد ہادی کے مطابق پشتو فلم اور سنیما انڈسٹری کو بہت سے عناصر نے اپنی نااہلی ، عدم توجہی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کے باعث ختم کرکے رکھ دیا ہے ۔ ان کے بقول فلمیں نہ چلنے کے باعث مالکان نے سنیما گھروں کو کمرشل پلازوں میں تبدیل کردیا کیونکہ ان کا مقصد پیسے کمانا ہے تاہم یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ متعلقہ حکومتی اداروں نے بھی جاری صورتحال پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔

ثقافت کو درپیش چیلنجز

Shopping Basket