عقیل یوسفزئی
سیکورٹی اور ریاستی بیانیہ سے متعلق ایک اہم ادارے نے گزشتہ روز پشاور میں اہم میڈیا اداروں اور صحافیوں کے ساتھ اس اسلحہ کو بطور ثبوت پیش کیا جو کہ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے پاکستان کے دہشت گرد گروپوں کو مہیا کیا گیا ہے اور جس کو سیکورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا میں مختلف آپریشن کے دوران تحویل میں لیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق اگست 2021 کی فال اف افغانستان کے بعد پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے تقریباً 50 ہزار ایسے اسلحہ کو اپنی تحویل میں لیا ہے ۔
اس قسم کے ثبوتوں اور شواہد کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت یہ ماننے کو تیار نہیں کہ وہ نہ صرف افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے دے رہی ہے بلکہ دہشت گرد گروپوں کی باقاعدہ سرپرستی بھی کرتی ارہی ہے ۔ امریکہ اور نیٹو کا یہ اسلحہ جہاں کالعدم ٹی ٹی پی استعمال کررہی ہے وہاں بلوچستان نیشنل آرمی اور دیگر بھی یہ ریاست پاکستان کے خلاف استعمال کرتی آرہی ہیں جو کہ تشویش ناک عمل ہے ۔
سینیر صحافی عرفان خان کے مطابق ان سمیت پشاور کے متعدد صحافیوں نے گزشتہ روز یہ جدید اور خطرناک اسلحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان افغانستان کی عبوری حکومت اور کے پاکستان مخالف پالیسیوں کی جو شکایت کرتا آرہا ہے وہ بلکل درست ہے اور اس تمام گیم کو بھارت کی آشیرباد اور فنڈنگ بھی میسر ہیں ۔ ان کے مطابق پاکستان خصوصی طور پر خیبرپختونخوا کی حکومت اور پی ٹی آئی سمیت متعدد دیگر حلقے افغان اور پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی وکالت کررہے ہیں مگر ان کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا حالانکہ جب جب پاکستان نے ٹی ٹی پی وغیرہ سے مذاکرات اور معاہدے کئے ریاست اور عوام کو فایدے کی بجائے نقصان اٹھانا پڑا ۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے چیف خطیب اور ممتاز عالم دین مولانا طیب قریشی نے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے جس کے آئین پر اہم علماء نے بھی دستخط کئے ہیں ایسے میں یہاں جہاد کے نام پر دہشت گردی کو شرعی طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جاری دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام کی کوششوں کے باعث خیبرپختونخوا اور پورے ملک کی سیکیورٹی صورتحال خطرے میں پڑ گئی ہے تاہم بعض حلقے اب بھی دہشت گردی کی وکالت کررہے ہیں جو کہ افسوس ناک رویہ ہے ۔


