عقیل یوسفزئی
یہ بات قابل افسوس ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے ایران میں افغانستان سے متعلق منعقدہ کانفرنس سے بائیکاٹ کیا اور اس فیصلے کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں بتائی ۔ لگ یہ رہا ہے کہ بعض حلقوں کے تجزیوں کے برعکس افغان طالبان خود میں کوئی اعتدال لانے کی کوشش نہیں کررہے اور اسی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان شدید نوعیت کے علاقائی اور عالمی تنہائی کا شکار ہوگیا ہے ۔
تہران میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی محمد صادق خان نے کی جبکہ اس ایونٹ میں افغانستان اور ایران میں پاکستان کے سفیر بھی شریک ہوئے ۔ پاکستان نے کراس بارڈر ٹیررازم پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے ایک خطرہ بنا ہوا ہے اور عملاً دہشت گردوں کے ٹھکانے میں تبدیل ہوگیا ہے ۔
اس سے چند روز قبل کابل میں ہونے والے ایک کانفرنس کے دوران تقریباً ایک ہزار علماء نے ایک اعلامیہ ، فتویٰ میں اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہو ۔ اسی تسلسل میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایک بیان میں اس اعلامیہ کا خیر مقدم کیا تاہم تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین 25 سے زائد دہشت گرد گروپوں کا مرکز ہے اور افغان حکومت عالمی تشویش کو خاطر میں نہیں لارہی ۔
ممتاز سکالر ڈاکٹر قبلہ آیاز نے علماء کانفرنس کے اعلامیہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی واقع ہوگی ۔ ان کے مطابق کوشش کی جانی چاہیے کہ تمام تنازعات کو مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے حل کیا جائے کیونکہ جاری کشیدگی اور دہشت گردی سے دونوں ممالک کے عوام براہِ راست متاثر ہوتے آرہے ہیں ۔
دوسری جانب سیکیورٹی فورسز نے گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں اور مہمند میں انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز کرتے ہوئے 13 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے ۔ بنوں آپریشن کے دوران گل بہادر گروپ کے اس کمانڈر کو بھی ہلاک کردیا گیا جو کہ شمالی وزیرستان کے ایک اسسٹنٹ کمشنر کی شہادت میں ملوث تھا ۔
سیکیورٹی ذرائع کی جانب سے تیراہ سمیت ضلع خیبر کے بعض دیگر علاقوں میں باجوڑ کی طرح آپریشن کے اشارے دیے جارہے ہیں جبکہ بعض ذرائع دعویٰ کررہے ہیں کہ آپریشن کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے ۔ اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ آیندہ چند ہفتے خیبر اور پشاور کی سیکیورٹی صورتحال کے تناظر میں کافی اہم ثابت ہوسکتے ہیں ۔


